28 جون ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے کہ بچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں تو خود توہین عدالت کی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا، ساتھی جج نے کمرہ عدالت میں بات کر دی تھی جس کے بعد کارروائی شروع کرنا پڑی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بچپن میں جو باتیں گلی محلوں میں سنتے تھے اب ٹی وی چینلز پر سنتے ہیں، اس پر جسٹس عقیل نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر ان لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جنہیں قانون کا کچھ علم نہیں ہوتا، تبصرے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے 1600 فیصلے لکھ چکے ہیں، کوئی میکنزم نہیں ہے تو بنا لیں۔
جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ ہمیں کوئی شوق نہیں کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، کیا کریں مگر معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، میڈیا کی آزادی سے متعلق ہم بہت محتاط ہیں، کورٹ رپورٹنگ کرنے والے معاشرے میں ایک کام کر رہے ہیں، جا کر بتاتے ہیں یہ ہو رہا ہے، اب وہ فیصلے سے پہلے تنقید شروع کر دیں تو کیا کریں، کچھ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے انہیں جج کی کرسی پر ہونا چاہیے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت میں بتایا کہ توہین آمیز نیوزکانفرنس رؤف حسن نے بھی کی ہے اس پرچیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ رؤف حسن کون ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رؤف حسن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور انہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کے بارے میں ایسے توہین آمیز الفاظ کہے ہیں جو دہرانا بھی نہیں چاہتے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے کہ پچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔