15 اگست ، 2024
بلوچستان کی صوبائی حکومت بیوروکریسی کے سامنے بے بس ہوگئی، وزیر اعلیٰ کے بیشتر احکامات پر 5 ماہ گزرنے کے بعد بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔
رواں سال یکم مارچ کو میر سرفراز بگٹی نے وزیراعلیٰ بلوچستان کا منصب سنبھالتے ہی کوئٹہ شہر کی صفائی کا بیڑا اٹھاتے ہوئے پی ڈی ایم اے کو شہر کا کچرہ اٹھانے کیلئے کروڑوں روپے بھی جاری کیے تاہم وزیراعلیٰ کے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے اور شہر میں آج بھی جا بہ جا کچرے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب صوبے کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی ہو یا پھر 2000 سے زائد گھوسٹ اساتذہ کو ملازمت سے نکالنے کے اعلانات لیکن کسی پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا اور اس بات کا اعتراف وزیراعلیٰ بھی برملا کرنے لگے ہیں۔
میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ صوبے کی بہتری کیلئے بطور وزیراعلیٰ بلوچستان میں نے بیوروکریسی کو 332 ڈائریکشنز دیں لیکن ان میں سے 99 فیصد ابھی تک پینڈنگ ہیں اور 263 فیصلے کیے لیکن ان میں سے بھی صرف 20 پر عملدرآمد ہوا۔
میر سرفراز بگٹی نے محکمہ لائیواسٹاک کی عمارتوں اور اراضی کو بااثر افراد کے قبضے سے چھڑوانے کے احکامات بھی دیے تھے مگر مہینوں گزرنے کے بعد بھی ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا ہے۔
اسی طرح صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے احکامات بھی دیے گئے مگر ابھی تک ہر ضلع میں وزرا اور ایم پی ایز کے من پسند ایس پی تعینات ہیں اس پر اپوزیشن رہنما نے بھی ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت بیوروکریسی کے سامنے بے بس ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی اور حق دو تحریک بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ حکومت بے بس ہے بہت سارے فیصلوں کا صوبائی کابینہ کو بھی پتہ نہیں ہے، وہ بے بسی میں نے محسوس بھی کی اور دیکھی بھی ہے۔
بلوچستان میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ میر سرفراز بگٹی کی سربراہی میں قائم موجودہ صوبائی حکومت کا پہلے روز سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ گڈ گورننس کے قیام کیلئے بھر پور کوشش کی جائے گی۔