30 اگست ، 2024
اسلام آباد: چیئر مین اسلامی نظر یاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے واضح کیا ہے کہ ہجوم کا انصاف (Mob justice) نا قابل قبول ہے، یہ غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔
میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران چیئر مین اسلامی نظر یاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ توہین رسالت ہو یا توہین اہل بیت، تو ہین صحابہ ہو یا توہین قرآن، ملزمان کو سزا دینے کا اختیار ریاست کے پاس ہے جس کا قانونی طریقہ کا ر موجود ہے، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کا کو ئی اختیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کے قتل سے متعلق فتوے کو حرام کہا تو دھمکیاں ملیں، ا نتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف شعور کو اجاگر کیا جا ئے۔
انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے قوانین مو جود ہیں، سزاؤں کا تعین بھی کردیاگیا ہے لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے سیا لکوٹ، سوات اور سرگودھا جیسے واقعات رونما ہوئے، توہین مذہب قوانین میں موت سمیت 4 مختلف سزائیں متعین ہیں۔
ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کے مطابق گستاخی رسالت ﷺ کے مرتکب شخص کی قانون میں سزا، سزائے موت ہے، قرآن کی بے حرمتی کی سزا عمر قید، امتناع قادیانیت آرڈیننس کی خلاف ورزی کی سزا 3 سال قید ہے، انبیاء، صحابہ و اہل بیت کی شان میں گستاخی کی سزا 7 برس قید ہے، توہین رسالت ﷺکے معاملے پر کسی کو قتل کا فتویٰ دینے کا اختیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ میرے والد علامہ سر فراز نعیمی کو مساجد او ر مزارات پر حملوں اور قتل عام کے خلاف فتویٰ دینے پر شہید کیا گیا، میں نے بھی چیف جسٹس کے قتل سے متعلق فتوے کو غیر شرعی اور غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ کسی کو چیف جسٹس یا کسی اور کے قتل کا فتوی ٰ دینے کا اختیار نہیں تو مجھے بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، دھمکیاں دی گئیں، 400 سے 500 ایسے میسجز آئے جو نا قابل بیان ہیں، قتل کا فتوی دینا یا قانون ہاتھ میں لے کر خود انصاف کی کوشش غیر شرعی اور غیر آئینی ہے، عدم برداشت کے باعث لوگ مذہبی معاملات میں سننے کو تیار نہیں، توہین کا علم ہونے پر بھی کسی شخص کو دوسرے کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔
چیئر مین اسلامی نظر یاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ شریعت کسی شخص کو دوسرے کی جان لینے کا اختیار نہیں دیتی، ملک میں 5 فیصد قوانین ایسے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق نہیں، اسلام میں سختی سے ممانعت کے باوجود آج بھی ملک میں سودی نظام رائج ہے، سودی نظام ساری معیشت پر حاوی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ نئے قوانین میں ٹرانس جینڈر سے متعلق قانون کو شریعت کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے،بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومتوں نے معاہدے کر کے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔