01 اکتوبر ، 2024
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظر ثانی بینچ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈيا سے گفتگو میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آج کے بینچ میں جسٹس منیب اختر نہیں تھے،جب تک جسٹس منصورعلی شاہ بینچ تشکیل کرنے والی کمیٹی کا حصہ نہیں، بینچ قبول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی بینچ پر تحفظات ہيں،آج بالکل یکطرفہ بحث ہوئی، فیصلے کا دفاع کرنے کیلئے کوئی جج موجود نہ تھا کہ ججمنٹ میں کیا لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جس بینچ نے سماعت کی وہ غیرآئینی ہے، بینچ جسٹس منیب اختر کے بغیر سماعت نہیں کرسکتا، ملک میں آئینی بحران کے ساتھ عدالتی بحران بھی پیدا ہوگیا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ63 اے کی نظرثانی کے لیے بار ایسوسی ایشن نے نظرثانی فائل کی، وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاست میں لوٹا کریسی واپس لائی جائے، ان سب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں پہلا بحران ہوا تھا، اس معاملے پر فل کورٹ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کل آئینی بحث میں آئین اور قانون پر بات کروں گا، کسی کی ذات کی جانب بات نہیں کروں گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی 3 رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کے تیسرے ممبر اور سپریم کورٹ سینئر جج منصور علی شاہ نے آج بھی شرکت نہیں کی۔
دوسری جانب ججز کمیٹی نے 63 اے کی تشریح کے معاملے پر نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے جس میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو 5 رکنی بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔