20 فروری ، 2013
کراچی…محمد رفیق مانگٹ… امریکی اخبار”وال اسٹریٹ جرنل“ کے مطابق واشنگٹن نے واضح کردیا ہے کہ اگر اسلام آباد نے ایران سے گیس کی خریداری شروع کی تو اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے اخبار کو تحریر ی طور پر امریکی پوزیشن کا اعادہ کیا کہ امریکا کی ایران پر پالیسی واضح ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دنیا بھر میں اپنے مذاکرات کاروں پر واضح کردیا ہے،کہ ایسی سرگرمیوں سے بچناان کے اپنے مفاد میں ہے جنہیں اقوام متحدہ یا امریکی قانون کے تحت پابندیاں روکتی ہوں۔ اخبار کے مطابق ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو زیادہ تر پاکستان میں مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات کی ایک مہم کا حصہ سمجھا جارہا تھا ، پاکستان نے ایران کے ساتھ اس معاہدے میں پیش رفت کی ،اس قدام نے امریکا کو ناراض کردیا ہے اور ایرانی گیس کی درآمد کی صورت میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔پاکستانی سرکاری کمپنی انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم اور ایرانی تدبیر انرجی کے درمیان معاہدے پردستخط ہوگئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ منصوبے پر فوری کام کا آغاز ہوگا اور پاکستانی حصے کی پائپ لائن کی 15ماہ میں تکمیل کی جائے گی۔پائپ لائن کا مقصد ایران کا ایشیائی مارکیٹ سے منسلک ہونا ہے۔ بنیادی طو ر پر اس گیس پائپ لائن کو بچھانے کا مقصد پاکستان میں توانائی کے بحران سے نمٹنا ہے،اگر اس پائپ لائن کی وسعت پاکستان سے آگے کسی دوسرے ملک تک جاتی ہے تو پاکستان راہداری فیس کی مدمنافع حاصل کرے گا۔امریکا نے اس منصوبے کی مخالفت اور متبادل کے طور ترکمانستان ،افغانستان،پاکستان اور بھارت(تاپی) منصوبے کی حوصلہ افذائی کی۔جس کا مقصد ایران کو ایشیائی انرجی مارکیٹ سے باہر رکھنا ہے۔پاکستان کوگیس پائپ لائن پر آغاز سے معاہدہ طے پانے میں دس سال لگے، جس کا مقصد ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانا ہے۔ایران پاکستانی سرحد پر پہلے ہی لائن بچھا چکا ہے۔ایک بار سرحد پر پائپ لائن منسلک ہوگئی تو ایرانی ساحلی شہر اصالحAsaluyeh اور پاکستان میں ملتان تک منسلک ہوجائے گی اور یومیہ750ملین کیوبک فیٹ گیس درآمد ہوگی۔پائپ لائن یومیہ چار ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کو اسپورٹ کرے گی۔پاکستان کو یومیہ پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔اس پائپ لائن کا تیسرا شراکت دار بھارت تھا جو2008سے اس منصوبے نکل گیا۔رپورٹ کے مطابق پائپ لائن پاکستان میں توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد دے گی تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے مقابلے میں پاکستان ،امریکا اور ایران کے درمیان جیوپولیٹیکل خدو خال کو زیادہ ابھارتا ہے ۔اخبار نے ایک معاشی تجزیہ کار کے حوالے لکھا کہ یہ معاہدہ پاک امریکا تعلقات کو شدید متاثر کرے گا۔ تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت معاہدے کی تشہیر اس اندا ز میں کر رہی ہے جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم نے امریکی مخالفت کے باوجود یہ معاہدہ کیا۔اس کامقصد امریکی مخالف جماعتوں کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔اخبار کے مطابق اگست میں ایران پر عائد پابندیوں کو سخت کیا گیا اور رواں ماہ کے آغاز میں ایرانی پٹرولیم،پیٹرو کیمیکلز،انشورنس،شپنگ اور مالیاتی سیکٹرز میں تعاون کرنے والی کمپنیوں پر امریکا نے جرمانے اور سزائیں دینے کی بات کی گئی۔امریکی وزارت خزانہ نے دسمبر میں یہ واضح کیا کہ 8مارچ سے قبل ایرانی مارکیٹ سے کتنی کمپنیا ں نکل سکتی ہیں۔لیکن پاکستان ان ممنوعہ علاقوں میں براہ راست جا رہا ہے۔ماضی میں پاکستان ان پابندیوں کے خوف سے ہچکچاتا رہا،دسمبر میں صدر زرداری نے اس معاہدے پر دسخط کیلئے ایرانی دورہ منسوخ کردیا تھا۔اس منصوبے کی لاگت کا تیسرا حصہ قرض کی صور ت میں ایران ادا کرے گا۔پاکستان کی مالی حالت کمزور ہے پاکستان کا حکومتی قرض مجموعی پیداواری اخرجات(جی ڈی پی) کا 68 فیصد پر کھڑا ہے۔اخبار کے مطابق گیس پائپ لائن پر پاکستانی وزارت پٹرولیم نے تبصرے سے انکار کردیا۔