16 دسمبر ، 2024
لاہور: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے لیکن عدالتی احکامات کے باوجود گزشتہ 7 برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔
لاہور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے متعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس ہے، پاکستان موسمیاتی ایمرجنسی کا پاکستان کو سامنا ہے، پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے اثر انداز ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا عدالتوں نے ہمیشہ موسمیاتی ایمرجنسی کے کیسز کو سنجیدہ لیا ہے، 90 کی دہائی میں انڈسٹریز بند کرنے سے لے کر دیگر عوامل پر بات کی گئی، عملدرآمد کون کرے گا اس پر بات نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ فنانس پر بات ہی نہیں ہوئی، نیچر فنانس کے بغیر موسمیاتی ایمرجنسی سے لڑا نہیں جا سکتا، فوڈ سکیورٹی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور واٹر سکیورٹی سمیت دیگر عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اربن پلاننگ اور ایگریکلچرل پلاننگ پر بات کرنا ہو گی، کلائمیٹ جسٹس پر تحریک چلانا ہو گی۔
سریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، کیسز میں عدالتوں نے ہدایات جاری کیں لیکن گراؤنڈ پر کچھ نہیں ہوا، یہ دیکھا نہیں گیا کہ ریسورس ہے کہ نہیں، حکومت نے بھی اس کو فوکس نہیں کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا پاکستان میں کلائمیٹ فنانس امید کی ایک کرن ہو گا، یہ لوگوں کو سکیورٹی دے گا، کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس دے سکے گا، یہ بنیادی طور پر انسانی حق ہے، آئینی اعتبار سے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کلائمیٹ فنانس کی طرف جانا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہمیں موسمیاتی ایمرجنسی کیلئے مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا 26 ویں آئینی ترمیم بھی کلائمیٹ فنانس جیسا بڑا ایشو ہے، عدالتیں حکومت اور اداروں کو ہدایت جاری کرتی رہتی ہیں۔