01 مارچ ، 2013
کراچی… کراچی میں فائربریگیڈکی دودرجن سے زائد ناکارہ گاڑیاں شہر میں آگ لگنے کے کسی بھی بڑے واقعے کانقصان کئی گنابڑھا سکتی ہیں۔ فائر بریگیڈ کی 25 گاڑیاں 5 ماہ سے نا قابل استعمال ہیں، گاڑیوں کی مرمت کیلئے کے ایم سی کی اپنی 2 ورکشاپ ہیں لیکن مرمت کا 5 کروڑ روپے کا ٹھیکا ایک نجی ورک شاپ کو ہر سال دیا جاتا ہے۔ بلدیہ فیکٹری سمیت آگ لگنے کے کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن میں آگ پربروقت قابو پانے میں عملہ ناکام رہا، فیکٹری واقعے میں توجانی نقصان بھی اس قدر زیادہ ہوا کہ سیکڑوں گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ فائربریگیڈکے عملے کو2ماہ سے تنخواہیں بھی نہیں ملیں، وردی الاؤنس بھی بند ہے اور 3ماہ کا اوورٹائم ملنا تو بس خواب ہوگیا ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ جان جوکھم میں ڈالنے کی قیمت فائرالاؤنس کے نام پرمحض 50روپے ماہانہ مقررہے۔ برطانوی دورمیں یہ رقم اس وقت مقررکی گئی تھی جب تنخواہ ہی 80روپے مہینہ تھی۔ شہرمیں 22فائراسٹیشنز ہیں جن میں سے اکیسویں صدی کے اس دورمیں صرف دو میں وائر لیس کا نظام ہے۔ فائر بریگیڈ کی ہر گاڑی کو ماہانہ صرف 60 لیٹر فیول دیا جاتا ہے لیکن 8گیئر اور کئی ہزار سی سی کی گاڑیاں ایک لیٹر میں چند کلو میٹر ہی چلتی ہیں۔ شہری حیران ہیں کہ کیایہ گاڑیاں بھی پولیس موبائلوں کی طرح عوام کی جیب پرہاتھ صاف کرکے ہی چلائی جارہی ہیں؟