28 جنوری ، 2025
یوسف رضا گیلانی 2008ء میں وزیراعظم بنے تو میرا کبھی کبھار وزیراعظم ہاؤس جانا ہوتا تھا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جب وہ اڈیالہ جیل میں تھے تو میں ان کی کتاب " چاہِ یوسف سے صدا" کے سلسلے میں ہر ہفتے اڈیالہ جیل جایا کرتا تھا۔ یہ ایک لمبی اسٹوری ہے کہ وہ وزیراعظم کیسے بنے… یہ کہانی پھر سہی، آج صرف اتنا بتاتا ہوں کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو میرا پی ایم ہاؤس میں آنا جانا ہوتا تھا، نیب کے موجودہ چیئرمین سے میرا پہلا تعارف وہیں ہوا، بریگیڈیئر نذیر احمد بٹ اس وقت وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری تھے پھر وہ ملٹری اتاشی بن کے امریکا چلے گئے، واپس آئے تو میجر جنرل سے ہوتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل بن گئے پھر ایک دن پتہ چلا کہ وہ کور کمانڈر پشاور بن گئے ہیں، جونہی وہ وزیراعظم ہاؤس سے گئے تو میرا ان سے کبھی رابطہ نہیں رہا۔
2022ء کے رجیم چینج کے بعد ایک دن پتہ چلا کہ نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان نے اس بات پر استعفیٰ دے دیا ہے کہ وہ نیب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ میں خود بھی اس بات کا قائل ہوں کہ نیب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے بلکہ جو چور لٹیرے ہیں، ان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ میں جب بھی نیب کی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایک نام بہت یاد آتا ہے، یہ جنرل امجد حسین کا نام ہے، جو کسی کی سفارش نہیں سنتے تھے، انہوں نے ملک لوٹنے والوں پر شکنجہ کسا ہوا تھا کہ پرویز مشرف سیاسی فائدے کے لئے کچھ لوگوں کی سفارش کر رہے تھے۔ جنرل امجد نے سفارشیں ماننے سے انکار کیا تو انہیں استعفیٰ دینا پڑا پھر جنرل خالد مقبول کو چیئرمین نیب لگایا گیا تو کاروباری مصلحتوں کے تمام دروازے کھل گئے۔
وقت گزر جاتا ہے، انسان گزر جاتے ہیں، کردار یاد رہ جاتا ہے، وقت کو جب بھی مثال دینی پڑے تو وہ باضمیر اور حق پرست کرداروں کو یاد کرتا ہے۔ اگر کردار اتنا اہم نہ ہوتا تو لوگ آج بھی کروڑوں کی تعداد میں امام حسین ؓ کے کردار پر فخر نہ کر رہے ہوتے۔ نیب کا سیاسی کردار جو بھی ہو، اسے وہ ادا نہیں کرنا چاہئے یعنی نہ تو وہ سیاست کیلئے آلہ کار بنے، نہ ہی سہولت کار بنے۔ اگر نیب لوگوں کی خدمت کرے، پاکستان کو لوٹنے والوں کا احتساب کرے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے والوں کا حساب کرے تو درست ہے، ہم اسے شاباش دیں گے۔
نیب کی طرف سے ایک اچھی خبر ملی ہے کہ پچھلے دنوں چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے لاہور میں متاثرین میں پلاٹوں کے ایلوکیشن لیٹر اور چیک تقسیم کئے ہیں، اسٹیٹ لائف کووآپریٹو ہاؤسنگ اور فارمانائیٹس ہاؤسنگ سوسائٹی سکینڈلز کے 8310 متاثرین میں70 ارب مالیت کے ایلوکیشن لیٹر اور 97 کروڑمالیت کے چیک تقسیم کئے گئے۔ یقیناً یہ ریکوری نیب لاہور کی بڑی ریکوری ہے۔ سنا ہے چیئرمین نیب نے بزنس کمیونٹی کی سہولت اور رئیل اسٹیٹ سے متعلقہ مسائل کے حل کے لئے نیب لاہور میں بزنس سہولت سیل کا افتتاح بھی کیا ہے، انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے سہولت سیل بھی قائم کیا ہے۔
اگرچہ الاٹمنٹ لیٹر اور چیکس چیئرمین نیب نے تقسیم کئےہیں مگر اس بڑی ریکوری کا سہرا امجد مجید اولکھ اور ان کی ٹیم کے سر ہے۔ امجد مجید اولکھ ڈی جی نیب لاہور ہیں، ان کا نام سامنے آتے ہی مجھے ارشد اولکھ یاد آ جاتے ہیں، سیاست میں عمر گزارنے والے ارشد اولکھ پکے راوین ہیں۔ نیب کی جس تقریب میں متاثرین کے چہروں پر رونق آئی اور انہیں احساس ہوا کہ ان کی ڈوبی ہوئی پونجی مل گئی ہے، اس تقریب میں چار اور افراد بھی شریک تھے، سابق رجسٹرارکووآپریٹو ڈیپارٹمنٹ پنجاب اشفاق احمد چوہدری، ڈی جی ایل ڈی اے طاہر فاروق، چیئرمین لیک سٹی ہولڈنگ گوہر اعجاز، صدر اسٹیٹ لائف کووآپریٹو سوسائٹی کرنل (ر) مبین صفدر۔ باقی افراد کو تو میں اتنا نہیں جانتا البتہ اشفاق چوہدری کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ دیانتدار ہیں، ان جیسے افراد بیوروکریسی میں چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتے ہیں۔
گوہر اعجاز، معاشی سچ بولنے کے حوالے سے خاصے مشہور ہوئے تھے۔ اسٹیٹ لائف ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کیلئے جب سوسائٹی کچھ نہیں کر رہی تھی تو پھر اس سوسائٹی کا الحاق لیک سٹی سے کیا گیا۔ نیب نے یہ اچھا کام کیا ہے، اسے سراہا جانا چاہئے مگر ان لوگوں کا بھی حساب ہونا چاہئے جو متاثرین کے پیسے ہڑپ کر گئے تھے، انہیں سخت سزائیں بھی ملنی چاہئیں۔ نیب لاہور کی کارکردگی سے یاد آیا کہ انہوں نے پچھلے دو سالوں میں 26ہزار متاثرین میں 12ارب روپے تقسیم کئے ہیں۔ اگر نیب کا یہی طرز عمل رہا تو کسی ہاؤسنگ سوسائٹی والے کو یہ جرات نہیں ہو گی کہ وہ لوگوں کی رقوم ہڑپ کر سکے۔ پروفیسر شازیہ اکبر کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
مجھے لے جاتی ہے امید، سحر کی جانب
رات کیسی بھی ہو، ہر حال میں ڈھل جاتی ہے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔