22 فروری ، 2025
سوال:جنوبی ایشیا کے لوگ اور ملک جھگڑالو کیوں ہیں؟ وضاحت کریں۔
جواب:طنزیہ وضاحت تو یہ ہے کہ چونکہ پاکستان، بھارت بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لوگ مرچ مصالحہ بہت استعمال کرتے ہیں اس لئے وہ گرم مزاج رکھتے ہیں اور جھگڑالو ہوتے ہیں۔ تاہم گہرا جواب کچھ یوں ہے کہ جنوبی ایشیا کے باشندے خود اپنے جھگڑے نمٹانے (Conflict Resolution) کی صلاحیت نہیں رکھتے جس طرح مغرب کے نوجوان پیچیدہ انسانی تعلقات سے دور بھاگتے ہیں یا جس طرح مشرق وسطیٰ کی آج کی پود کو سطحیت سے غرض ہے ،گہرائی سے نہیں۔
جنوبی ایشیا میں ہمارے گھروں میں لڑائی ہو، کاروبار میں تنازع ہویاسیاست کا جھگڑا ، ملکوں کی محاذ آرائی ہو یا شخصی تضاد ، ان اختلافات کو نمٹانے کا کوئی طریقہ ہے نہ روایت۔ بھائی بہن لڑ پڑیں تو دہائیوں تک صلح نہیں کرتے۔ کاروبار میں تنازع ہو جائے تو یا شراکت داری ٹوٹ جاتی ہے یا معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچ جاتا ہے۔
مغربی دنیا میں جھگڑے نمٹانے کی مضبوط روایت ہے دونوں فریق لچک دکھاتے ہیں اور یوں جھگڑے حل ہوجاتے ہیں ،ہم تو ابھی تک ساس بہو کی لڑائی ختم نہیں کراسکے ہم ابھی تک کاروبار میں شراکت داری پر شک و شبہ کے بادلوں کو دور نہیں کرسکے ابھی تک جائیداد کی وراثت پر تنازعات کاحل نہیں ڈھونڈسکے۔
برصغیر کی تاریخ میں اشوکا کے سوا کسی مقامی حکمران نے پورے خطے پر راج نہیں کیا۔ صرف مغل اور انگریز پورے برصغیر پر راج کرسکے اور وہ دونوں غیر ملکی تھے کیونکہ راجے مہاراجے آپس میں ہی جھگڑتے رہتے تھے ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے تھے، آج بھی بھارت اور پاکستان کے جھگڑے 75 سال سے طے نہیں ہو رہے کیونکہ دونوں ممالک میں لچک نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں ضد کے علاوہ تکبر بھی شامل ہوگیا ہے حالانکہ خطے کی خوشحالی کے لئے مصالحت اور آپس میں کاروبار بہت ضروری ہے۔
سوال:تحریک انصاف اور مقتدرہ کے درمیان محاذ آرائی کب اور کیسے ختم ہوگی؟
جواب:جس دن ایک بھی فریق میں لچک پیدا ہوگئی اسی دن مصالحت ہو جائے گی یا پھر تحریک انصاف کے حامی دعا کریں کہ کسی بھی طرح مقتدرہ اور شہباز حکومت میں کوئی بڑا اختلاف پیدا ہو جائے جس کا شہباز شریف کے ہوتے ہوئے امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوال:پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا کیا بنے گا؟
جواب:کچھ بھی نہیں بنے گا۔ تحریک انصاف کا صرف ایک ہی لیڈر ہے اور وہ ہے عمران خان۔ باقی کسی بھی بڑے نام کی تنکا برابر بھی حیثیت نہیں، عمران خان کی اپنی پارٹی کے اندر اتنی مضبوط پوزیشن ہےکہ وہ جسے چاہے نکال دے اور جسے چاہے پارٹی کا چیئرمین بنا دے اس کے حامیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ وہ ان فیصلوں کو خوش دلی سے تسلیم کرلیں گے۔
سوال:کیا عمران خان رمضان کے بعد نئی تحریک چلانے میں کامیاب ہوں گے؟
جواب: تحریک انصاف تنِ تنہاتوکوئی بڑی تحریک چلانے کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر گرینڈ اپوزیشن اتحاد کے مولانا فضل الرحمان ایک نیا ٹرمپ کارڈ ہیں، دیکھنا یہ ہوگا کہ مولانا فضل الرحمٰن اس تحریک میں کتنا سرگرم کردار ادا کرتے ہیں، ان کے پاس منظم کارکن موجود ہیں جن سے ریاست محاذ آرائی میں متذبذب ہوگی کیونکہ ردعمل میں مذہبی شدت پسندی بڑھے گی اور طالبان اورمولانا فضل الرحمان کے حامی مل کر ریاست کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے اس کے حامی دباؤ، تشدد یا تھکاوٹ اور لاتعلقی کے باعث احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے بالخصوص پنجاب میں تحریک انصاف بدستور مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود اپنے حامیوں پر اپنی گرفت کھو چکی ہے اس کے حامی عمران خان کو ووٹ تو دے دیں گے لیکن وہ مزید گرفتاریوں، جیلوں یا قربانیوںکیلئے تیار نظر نہیں آتے۔
سوال:کیا شہباز شریف حکومت مضبوط ہو رہی ہے یا کمزور؟ اسٹیبلشمنٹ سے اس حکومت کے تعلقات کیسے ہیں؟
جواب:شہباز حکومت کو فی الوقت مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔شہباز شریف میں بہت لچک ہے اور وہ مقتدرہ کو کبھی ناراض ہونے کا ذرہ برابر موقع نہیں دیتے وہ نہ تو اپنے عہدے کے پروٹوکول کی پروا کرتے ہیں اورنہ ہی بطور وزیر اعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو کو حاصل اختیارات کے استعمال پر ضد کرتے ہیں، دوسری طرف مقتدرہ ان کی محنت اور شبانہ روز کارکردگی پر خوش نظر آتی ہے البتہ میاں نواز شریف مقتدرہ سے اتنا تعلق واسطہ نہیں رکھتے جتنا شہباز شریف رکھتے ہیں،پہلے وفاق اور پنجا ب میں دوری نظر آ رہی تھی مگر اب دونوں اس خلا کو دورکررہے ہیں جو ظاہری طور پر نمایاں ہونے لگا تھا۔
مریم نواز کو مقتدرہ کے حوالے سےکھلی آزادی اور خود مختاری حاصل ہے وہ اپنے فیصلے خودکرتی ہیں وفاق جیسا دباؤ پنجاب حکومت پر نظر نہیں آتا۔ مریم نواز اب عوام کے سامنے آ کر کھلے عام اپنی بات بھی کر رہی ہیں، وہ دن گئے جب پی ٹی آئی انہیں ہجوم سے خوف دلایا کرتی تھی۔
سوال:کیا موجودہ نظام چل جائے گا؟
جواب:اگرکوئی حادثہ نہ ہوا تو موجودہ نظام چل پڑا ہے، عدلیہ، امریکہ اور عوامی احتجاج کے خطرات زائل ہو چکے ہیں تاہم سیاسی اور قانونی جواز پر سوالات ابھی باقی ہیں۔موجودہ سیاسی حکومت کو اس وقت تک مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل رہے گی جب تک ان کا مشترکہ دشمن بہت کمزور نہیں ہو جاتا۔ مگر جب یہ ہدف پورا ہو جائے گا تو پھر مقتدرہ اور ان کی سیاسی حکومت میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ اتحاد، اشتراک اور تعاون تبھی تک چلتے ہیں جب تک اہداف مشترک ہوں، ماضی کا تجربہ یہی ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
سوال:خلیجی ممالک سے 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقعات کیوں پوری نہیں ہو رہیں؟۔
جواب:دراصل یہ توقعات خوش فہمی پر مبنی تھیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سرمایہ کاری میں دلچسپی ضرور رکھتے ہیںمگر وہ سرمایہ کاری صرف ان شعبوں میں کریں گے جہاں سے انہیں منافع ہوگا وہ صرف دوستی اور مذہبی بنیادوں پر اب سرمایہ کاری کرتے نظر نہیں آتے ۔تاہم ریاست کو اب بھی توقع ہے کہ ملکی استحکام کے بعد ہن برس سکتا ہے تاہم منطقی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ،پاکستان کو خود ہی اپنے وسائل بڑھانا ہوں گے اور انہی پر گزارا کرنا ہوگا۔
سوال:کیا پاکستان محاصرے میں ہے؟ پاکستان کے پاس آپشنز کیا ہیں؟
جواب:بظاہر تو ایسے ہی لگتا ہے کہ پاکستانی ریاست دشمن بھارت اور مخالف افغانستان کے گھیرے میں ہے، دونوں طرف سے مسلسل حملے اور محاذ آرائی جاری ہے مگر پاکستان نے بنگلہ دیش سے دوستی کی جو نئی راہیں کھولی ہیں اس سے ریاست پاکستان کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ افغانستان کے اندر بھی وہاں کی حکومت کے خلاف محاذ بن رہا ہے اور اگر افغانستان کی حکومت کا یہی رویہ رہا تو عالمی حمایت کے بعد پاکستان بھی افغانستان کی مخالف حکومت کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ کر سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔