Time 25 فروری ، 2025
بلاگ

کیا اب کوئی امید نہیں؟

کیا اب کوئی امید نہیں؟
بھاری شکست، سلیکشن اور حکمت عملی کی غلطیوں اور جذبے کی واضح کمی نے مداحوں اور پنڈتوں کو پاکستان ٹیم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگانے پر مجبور کردیا— فوٹو: فائل

ٹی ڈی گارڈن میں خوشی کی گونج نہیں، شکست کی مایوسی تھی،کھلاڑیوں کے سر جھکے ہوئے، آفیشلز پریشان اور مداح خدشات کا شکار تھے۔

 آج ایک اور میچ میں شکست کیساتھ ان کی ٹیم این بی اے سیزن کی دوسری بدترین ٹیم بن گئی تھی۔ یہ 2006-07 سیزن میں بوسٹن سیلٹکس کی ٹیم تھی جو بری طرح ہار کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی۔

24 فتوحات کیساتھ 58 شکستوں کا ایک سلسلہ تھا جس نے بوسٹن سیلٹکس کو گھیر رکھا تھا۔ ٹیم کے لاکر روم میں مایوسی بھری ہوئی تھی، ناکامی کے بوجھ تلے ہر کھلاڑی دبا ہوا تھا۔ کوئی کسی سے بات کرنے یا آنکھیں ملانے تک کا روادار نہیں تھا۔ رخ بدلتے ہیں۔ بوسٹن سے ہزاروں میل دوراور چند سال بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کرکٹ میدانوں میں چلتے ہیں جہاں انگلینڈ کی 2015 کے ون ڈے ورلڈ کپ کی مہم بھی ایک ایسی ہی افسوس ناک کہانی تھی۔

انگلش ٹیم کو اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بنگلا دیش سے ذلت آمیز شکست ہی نہیں ملیں بلکہ وہ میچز ان کیلئے عوامی تذلیل بن گئے۔ محدود اوورز کی کرکٹ میں انگلینڈ کی ٹیم کی کارکردگی بربادی کی ایک داستان سنا رہی تھی۔

اس ٹیم کے کھلاڑی، آفیشلز اور مداح بولٹن سیلٹکس کی طرح تباہی کی تصویر بنے ہوئے تھے جن کو کوئی جائے فرار نظر نہیں آرہی تھی۔ ان دونوں ٹیموں نے آنے والے چند برسوں میں کیسے اپنی قسمت بدلی۔ اس پر کچھ سطور بعد گفتگو کرتے ہیں۔

آگے بڑھتے ہیں، آج پاکستان کرکٹ کے منظر نامے پر بھی اداسی کا راج ہے۔ نئے اسٹیڈیمز کے ساتھ دھوم دھام سے پاکستان کی میزبانی میں کھیلی جانے والی موجودہ چیمپئنز ٹرافی مایوسی کا استعارہ بن گئی ہے۔ 

وہ استعارہ جو سیلٹکس اور انگلینڈ ٹیم کے تاریک ترین دنوں کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان ٹیم بڑے ٹورنامنٹس میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو کر نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ 

بھاری شکست، سلیکشن اور حکمت عملی کی غلطیوں اور جذبے کی واضح کمی نے مداحوں اور پنڈتوں کو پاکستان ٹیم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگانے پر مجبور کردیا ہے۔

مہینوں بلکہ ہفتوں میں بدلتے کھلاڑی اور آفیشلز دوسری اقوام کیلئے ہنسی کا باعث بن گئے ہیں۔ کھلاڑی اپنے ماضی کی کارکردگی بھلا بیٹھے ہیں اور پاکستان کرکٹ مایوسی اور سہل پسندی کے سمندر میں بہہ چکی ہے۔

لیکن اس مایوسی کے اندر، اب بھی امید کی ایک جھلک باقی ہے، راکھ سے شعلے اٹھنے کا امکان ابھی موجود ہے۔ دنیائے اسپورٹس کیلئے یہ سب کچھ نیا نہیں۔ بوسٹن سیلٹکس کے دو دہائیوں قبل اور انگلش وائٹ بال کرکٹ ٹیم کے دس سال پہلے کے’’ٹرن اراؤنڈ‘‘ سے سبق سیکھ کر پاکستان اپنی بھی قسمت بدل سکتا ہے جس طرح اس وقت ٹیم کے جنرل منیجر ڈینی اینج نے بوسٹن سیلٹکس کی مشکلات کو سمجھا اور مانا اور نئے ڈائریکٹر کرکٹ اینڈریو اسٹراس نے انگلش کرکٹ میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت کو تسلیم کیا، اسی طرح پاکستان کے کرکٹ بورڈ کو بھی اپنی کمزوریوں کوجان کر ان کے تدارک کیلئے فوری منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔

انگلش ٹیم کے اسٹریٹیجک اوور ہال کی طرح پاکستان کو بھی ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ یہ کام وائٹ بال اسپیشلسٹس کھلاڑیوں، ٹرینرز، کوچز کی شناخت اور ان کو ایک خاص مدت کیلئے ٹاسک دیے جانے کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس طرح دو ہزار پندرہ میں انگلش کھلاڑیوں کو مخصوص مدت کے معاہدے اور تربیتی پروگرام کی پیشکش کی گئی، شاید پی سی بی کو بھی اس طرح کی سوچ لانا ہوگی۔

اس طریقہ کار سے کھلاڑیوں کو خصوصی طور پر اپنی وائٹ بال مہارت پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔ ہمیں اپنے کوچنگ کے فلسفے کو بھی جارحانہ، بے خوف اور جدید کرکٹ کی طرز پر لانا پڑے گا جو آج کی کامیاب ٹیموں کا خاصہ ہے۔ دو ہزار پندرہ کے ورلڈ کپ کے بعد لگائے جانیوالے انگلش ہیڈ کوچ ٹریور بیلس کے "رویہ میں تبدیلی" کے نعرے کی طرح پاکستان کو بھی ایک ایسے کوچ کی ضرورت ہے جو بے خوف انداز اپنائے، کھلاڑیوں کو آزادانہ طور پر کھیلنے کی ترغیب دے سکے۔ 

ایسا کرنے میں کچھ کھلاڑی ناکام ہونگے اور کچھ کامیاب۔ اس میں کچھ وقت بھی لگے گا۔ بورڈ، میڈیا اور مداحوں کو ان مشکلات، شکستوں کیلئے بہرحال تیار ہونا ہوگا۔ کچھ نئے کھلاڑیوں، نئے مائنڈ سیٹ کیساتھ ہار، ایسی شکستوں سے بہرحال بہتر ہو گی جن میں ہم اپنی ٹیم کو مسلسل پھنسا دیکھ رہے ہیں۔ 

ٹیم کے آفیشلز کیلئے ضروری کاموں میں ایسی بیٹنگ لائن اپ بنانا شامل ہے جو مختلف حالات کے مطابق کھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جس کے پاس تیز کھیلنے کی خصوصی ’’اسکل اور انٹینٹ‘‘ ہو  جو ٹاپ آرڈر کے آؤٹ ہونے یا کچھ وکٹوں کے گرنے پر اپنے خول میں بند نہ ہوجائے۔ 

جدید دور کی کرکٹ کے موجودہ رجحان پر توجہ دے جس میں جارح مڈل آرڈر اور فنشرز کو تیار کیا جائے نہ کہ ایسے کھلاڑی جو پچاس اوور میں ڈھائی سو بنانے کو ہی اپنے کھیل کا عروج سمجھیں۔

پاکستان کو ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جس طرح انگلینڈ میں فلیٹ ٹریکس نے ان کے بیٹرز کے جارحانہ انداز کو سپورٹ کیا، اسی طرح پاکستان کو ایسی پچز بنانے کی ضرورت ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں زیادہ اسکورنگ میچز کی حوصلہ افزائی کریں۔

اس سے کھلاڑیوں کو جدید وائٹ بال کرکٹ میں پرفارم کرنے کیلئے درکارصلاحیت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہمیں اپنی اے ٹیم کیلئے بیرون ملک چار روزہ اور پچاس اوورز کے میچوں پر مشتمل باقاعدہ دوروں کا انتظام کرنا ہو گا۔ محض دوسرے ملکوں کی چھوٹی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں اپنے کھلاڑی بھیجنے سے ہمیں کوئی خاص فائدہ نہیں مل سکتا۔

قیادت کیلئے بھی ہمیں انگلش کپتان اوون مورگن اور سیلٹکس کے کپتان پال پیئرس کی مثال سامنے رکھنا ہو گی جنہوں نے جیت کے مشن کیلئے جارحانہ کھیل کو اپنانے کو ترجیح دی۔ جس کے بعد ہی ان کی ٹیموں کو کامیابی نصیب ہو سکی۔

ہمیں بھی ایک ایسا کپتان چاہیے جو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی ٹیم کو لیکر چل سکتا ہو جو ٹیم میں اعتماد اور اتحاد کو فروغ دے سکتا ہو اور جارحانہ حکمت عملی پر مبنی فیصلے کر سکتا ہے۔

یعنی جسے ہار اور اپنی کپتانی جانے کا خوف نہ ہو۔ ایسے لیڈر کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا، مشکلات میں ٹیم کی رہنمائی کرنا ہوگی اورہر حال میں جیتنے والی ذہنیت کو ابھارنا ہوگا۔ موجودہ ٹیم کو ایک مضبوط لیڈر کی ضرورت ہے جو ٹیم کو متحد کرنے کیساتھ ساتھ ان کے سامنے کھیلنے کیلئے ایک واضح مقصد رکھ سکے۔

ٹیم کو مضبوط بولنگ اٹیک بھی تیار کرنا ہوگا۔ جدید وائٹ بال کرکٹ کو ایسے گیند بازوں کی ضرورت ہے جو ڈیتھ اوور میں بھی وکٹیں لے سکیں۔ لیگ بریک بولرز وائٹ بال کرکٹ میں انتہائی ضروری ہیں۔ انگلینڈ کی مثال لیں تو مورگن کے زیر سایہ ہمیں عادل راشد، مارک ووڈ اور جوفرا آرچر نظر آتے ہیں۔ 

اوون کے جانے کے بعد انگلینڈ نے اس جارحانہ سوچ کو نہیں بدلا بلکہ بین اسٹوکس اور میککلم کی صورت میں اسی حکمت عملی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کی فاسٹ بولنگ بیٹری ایک ساتھ فیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہماری تیز اور سلو بولنگ کی بینچ اسٹرینتھ اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے جس کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

کھیل کی فلاسفی تبدیل کر کے اور جارحانہ انداز اپنا کر بوسٹن سیلٹکس نے دوہزار آٹھ کا این بی اے سیزن جیتا تھا۔ اس سیزن میں ٹیم نے 16-66 میچز جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اسی طرح دوہزار پندرہ ورلڈ کپ کی تباہ حال کمپین کے بعد دو ہزار انیس میں انگلینڈ ٹیم ورلڈ چیمپئن بنی تھی۔

ہمارا سفر بھی مشکل ہوگا۔ ناکامیاں اور چیلنجز ہوں گے لیکن اسٹریٹیجک تبدیلی کو اپنا کر جارحانہ جذبے کو بروئے کار لا کر پاکستان وائٹ بال کرکٹ میں ایک غالب قوت بن کر سامنے آسکتا ہے۔ جس طرح بوسٹن سیلٹکس گر کر اٹھے اور چیمپئن بن گئے اور انگلینڈ ہاری ہوئی ٹیم سے دو ہزار انیس میں فاتح میں تبدیل ہوا، اسی طرح پاکستان جیت کیلئے اپنا راستہ خود بنا سکتا ہے۔

ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ مشکلات کے باوجود بھی عظمت حاصل کی جا سکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔