03 فروری ، 2025
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ یاجی ایچ کیوپر دہشتگردحملہ ہوتا تو کیا پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پرحملے کا ٹرائل اے ٹی سی اور صرف جی ایچ کیو حملے کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیے۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ سیویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہوسکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےطریقہ کارکی شفافیت پر اتفاق نہیں کیا، کیا دھماکا کرنے والے، ملک دشمن جاسوس سے سازبازکرنے والے اور عام سیویلنز میں کوئی فرق نہیں؟
سِویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21 ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی، وکیل خواجہ احمد
جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے آپ کو اپنے دلائل میں تفریق کرنی چاہیے، وکیل خواجہ احمد نے جواب دیا میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سیویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21 ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔
جسٹس حسن اظہر نے کہا 21 ویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیےگئے تھے، وکیل خواجہ احمد نے جواب دیا آرمی ایکٹ میں ترمیم سے پہلےکورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، ایساکورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑےگا کہ 21 ویں ترمیم بلاجواز کی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، عدالت کے سامنے سوال ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔
وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیے کہ 21 ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں، جسٹس حسن نے کہا ملٹری کورٹس میں تو اسپیڈی ٹرائل کیا جاتا ہے، 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے نہ ہونے سے کیا ہوگا ؟ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے، ملزم کے گرفتاری سے پہلے بھی سزا کے بعد بھی حقوق ہوتے ہیں۔
وکیل خواجہ احمد نے کہا آرمی ایکٹ ٹھیک بنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کس پر لاگو ہوتا ہے، عدالت سے صرف یہ گزارش ہے کورٹ مارشل کا دروازہ نہ کھولیں، اگر اس اپیل کو منظور کیا جاتا ہے تو انسانی حقوق کے بر خلاف ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ یاجی ایچ کیوپر دہشتگردحملہ ہوتا تو کیاپارلیمنٹ اورسپریم کورٹ پرحملےکا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا؟ اور جی ایچ کیو پر حملے کا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا؟ میری نظرمیں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی؟
بعد ازاں عدالت نے سیویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔