16 فروری ، 2025
امریکی صدر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو سے ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ غزہ پر ایک ایسے طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ ٹرمپ کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر اس پر حقیقی معنوں میں کام کر سکتا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ سب کو صدر ٹرمپ کی اس تجویز پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب دونوں رہنما میڈیا سے بات کرنے آئے تو شاید ہی کسی کو امریکی صدر کی جانب سے ایسے بیان کی امید تھی۔ تمام میڈیا کے نمائندے ٹرمپ کے بیان پر حیرت زدہ تھے۔زیادہ تر نمائندوں کو یہی امید تھی کہ ٹرمپ اور نتن یاہو کے مابین ہونے والی گفتگو کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اس بات کی امید تو بہت ہی کم لوگوں نے کی تھی کہ وہ غزہ کی پٹی پر قبضے کی بات کریں گے۔ یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ ٹرمپ کے ان بیانات نے بہت سارے لوگوں کے دماغوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہوگی۔
ان میں وہ ہزاروں امریکی ووٹرز بھی شامل ہیں جنہوں نے جو بائیڈن کو غزہ پر موقف کی وجہ سے انہیں ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے سے پہلے ٹرمپ اور نتن یاہو کی ملاقات اہم کیوں ہے؟ ٹرمپ امریکہ کی دہائیوں سے جاری مشرق وسطیٰ پالیسی بدلنے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ غزہ کے بارے میں ان کی تجویز کو بہت حمایت حاصل ہے تاہم مشرقِ وسطیٰ میں اس کے آثار نظر نہیں آتے۔صدر ٹرمپ نے فلسطینی علاقے مغربی کنارے کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہاں اسرائیل کی خودمختاری کی توثیق کرنے کے بارےمیں سوچ رہے ہیں اور اگلے 4ہفتوں میں اس بارے میں اعلان کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی مشرقِ وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دوبارہ ایسا ہی کچھ کرنے والے ہیں۔
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے سینئر فیلو برائن کٹولس کا کہنا ہے کہ انکے خیال میں ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے کا بیان بنا سوچے سمجھے دیا ہے اور امریکی صدر کا اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں وہ یہ سب باتیں بنا سوچے سمجھے کر رہے ہیں۔ واقعتاً اگر ایسا کوئی منصوبہ ہے بھی تو یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا آج کے مشرق وسطیٰ سے کوئی تعلق نہیں اور اس بارے میں فلسطینیوں یا اسکے ہمسایہ ممالک جیسے کہ مصر اور اردن سےکوئی مشاورت نہیں کی گئی ۔کٹولس کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات دے کر ٹرمپ توجہ کا مرکز بننا چاہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ٹرمپ نے ایسے ہی بیانات دئیے تھے جس کا مقصد بحث شروع کرنا تھا۔ دوسری جانب سعودی عرب نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ ٹرمپ اور نتن یاہو کے درمیان ملاقات کے بعد سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کا فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق موقف اٹل ہے۔کیا ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی پر اسرائیل کو سعودی عرب اور اسلامی دنیا کیلئے قابل قبول ریاست بنانے کا منصوبہ دوبارہ زیرغور ہو گا؟اس سے قبل وائٹ ہائوس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے امید ظاہر کی تھی کہ وہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات بحال کرنے کی اپنی کوششوں کو دوبارہ شروع کرنا چاہیں گے۔اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیلی اور امریکی مغویوں کو واپس لانے میں مدد کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی دوبارہ شروع کر دی ہے جو، جو بائیڈن انتظامیہ نے بند کردی تھی۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل جنگ جیت کر اس جنگ کو ختم کر دے گا یہ امریکہ کی بھی جیت ہو گی۔ گزشتہ رات ٹرمپ نے ایک سرکاری فنڈ قائم کرنے کے عمل کو شروع کرنے کیلئے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دئیے ہیں۔ یہ ایسے فنڈ ہوتے ہیں جو سرمایہ کاری کیلئے ممالک سرکاری سطح پر قائم کرتے ہیں۔ اس فنڈ میں سالانہ سرپلس فنڈ کو اس طرح شامل کیا جاتا ہے کہ جس سے مستقبل کی نسلوں کو فائدہ پہنچے۔
ٹرمپ نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اس فنڈ کیلئے رقم کہاں سے آئے گی مگر انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ تجویز دی تھی کہ اس فنڈ کو زیادہ ٹیرف عائد کر کے اور دیگر طریقوں سے مضبوط اور مربوط بنایا جا سکتا ہے۔ اس حکمنامے پر دستخط کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ فنڈ چینی ملکیت والی کمپنی ٹک ٹاک جیسے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ابھی امریکہ میں اس پلیٹ فارم پر پابندی میں ٹرمپ نے کچھ وقت مزید دے رکھا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس فنڈ سے کچھ خاص کرنے جا رہے ہیں شاید یہ ٹک ٹاک سے متعلق ہو یا اس سے متعلق نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ایک اچھی ڈیل کی تو پھر یقیناً ہم یہ تسلیم کر لیں گے وگرنہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس پلیٹ فارم میں یہ سب پیسہ جمع کرا دیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔