21 فروری ، 2025
جب بیٹریس ڈیونگی 15 سال قبل میڈیکل اسکول میں زیرتعلیم تھیں تو انہیں بتایا گیا تھا کہ آنتوں کا کینسر جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، بوڑھے افراد کا مرض ہے۔
یعنی یہ کینسر 50 سال سے زائد عمر کے افراد کو اپنا شکار بناتا ہے مگر جب انہوں نے آنتوں کے سرجن کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تو کینسر کی اس قسم کے شکار زیادہ تر مریض جوان افراد ثابت ہوئے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے Irving Medical Center میں ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سرجری کے طور پر کام کرنے والی بیٹریس ڈیونگی کے مطابق 'اب میں اکثر 30 یا 40 سال کی عمر کے ایسے افراد کا معائنہ کرتی ہوں جن کا آنتوں کا کینسر بہت زیادہ بڑھ چکا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ہر گزرتے سال کے ساتھ کم عمر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے'۔
ان کا تجربہ درحقیقت ایک تشویشناک عالمی ٹرینڈ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ موجودہ عہد میں جوان یا درمیانی عمر کے افراد میں کینسر کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر آنتوں، معدے یا اس سے جڑے دیگر کینسر بہت عام ہوچکے ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکا میں 50 سال سے کم عمر افراد میں معدے یا آنتوں سے جڑے کینسر کیسز کی شرح میں 2010 سے 2019 کے دوران 15 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے برعکس حالیہ برسوں میں معمر افراد میں کینسر کی ان اقسام کے کیسز کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی۔
کولمبیا یونیورسٹی کے میل مین اسکول آف پبلک ہیتھ کی کینسر اسپیشلسٹ ربیکا کھیم کے مطابق موجودہ دور میں کچھ بہت مختلف ہو رہا ہے اور جوان افراد اس مرض کے زیادہ شکار ہو رہے ہیں حالانکہ ماضی کی نسلوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ کینسر کیسز میں اضافے کی وجہ یہ نہیں کہ اسکریننگ تک رسائی بہتر ہوگئی ہے نہ ہی جینز اس حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر جینیاتی تبدیلیوں سے کینسر کیسز میں اضافہ ہوتا تو ہمیں متعدد نسلوں میں بتدریج اضافہ نظر آتا، چند دہائیوں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ایسا نہیں ہوتا۔
تو پھر جوان افراد میں کینسر تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟ ماہرین اس حوالے سے متعدد خیالات پیش کرتے ہیں۔
کچھ کے مطابق جوان افراد میں موٹاپے کی شرح بڑھنے سے جسم میں دائمی ورم پھیلتا ہے اور رسولی کی نشوونما ہوتی ہے۔
مختلف تحقیقی رپورٹس میں بھی موٹاپے کو کینسر کی متعدد اقسام سے منسلک کیا گیا ہے۔
مگر کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ناقص غذائی عادات اور زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے سے بھی معدے اور آنتوں سے متعلق کیسز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق الٹرا پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال آنتوں کے کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
درحقیقت یہ پہلی بار تھا جب مالیکیولر شواہد کے ذریعے غذائی عادات کو جوان افراد میں کینسر کیسز سے جوڑا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پراسیس غذاؤں میں موجود مخصوص فیٹی ایسڈز معدے میں موجود بیکٹیریا کو متاثر کرتے ہیں جس سے دائمی ورم پھیلتا ہے، ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے اور رسولی بننے لگتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ جسم میں اضافی چربی سے یہ عمل زیادہ تیز ہوسکتا ہے مگر موٹاپا بذات خود جوان افراد میں کینسر کے پھیلاؤ کا باعث بننے والا بنیادی عنصر نہیں۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ چوہوں پر تجربات بھی کیے جانے چاہیے تاکہ نتائج کی مکمل تصدیق ہوسکے۔
تاہم ان کا ماننا ہے کہ ڈیٹا سے ان کی تھیوری کو تقویت ملتی ہے کہ غذائی عادات آنتوں یا معدے کے کینسر میں پھیلاؤ میں کردار ادا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچپن سے ہی ناقص غذائی عادات سے طویل المعیاد بنیادوں پر نقصان پہنچتا ہے، چاہے جوان ہونے کے بعد وہ فرد صحت کے لیے مفید عادات ہی کیوں نہ اپنالے۔
اسی تحقیقی ٹیم کی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ ابتدائی طرز زندگی کے انتخاب خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لڑکپن سے ہی زیادہ وقت تک بیٹھ کر گزارنے سے جوان خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں بھی ثابت ہوا کہ جسمانی سرگرمیوں سے کینسر کی مختلف اقسام کا خطرہ گھٹ جاتا ہے مگر اس تحقیق بتایا گیا کہ لڑکپن سے ہی لڑکیوں کو ورزش کو معمول بنانا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں کینسر جیسے مرض سے بچ سکیں۔
اسی طرح کینسر کا خطرہ بڑھانے والے روایتی عناصر جیسے تمباکو نوشی، الکحل اور سرخ گوشت کا زیادہ استعمال بھی آنتوں کے کینسر کا شکار بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین کا یہ تحقیقی مقالہ جرنل Cancer Epidemiology, Biomarkers & Prevention میں شائع ہوا۔