05 مارچ ، 2025
یہ بات عام ہے کہ کوئی بھی جانور یا انسان سر قلم ہونے کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسی مرغے سے متعلق بتائیں گے جو سر قلم ہونے کے باوجود 18 ماہ تک زندہ رہا اور اس دوران اس مرغے نے نہ صرف دنیا بھر میں پہچان بنائی بلکہ اپنے مالک کو بھی مالا مال کردیا۔
70 سال قبل 10 ستمبر 1945 کو امریکی ریاست کولوراڈو میں لوئیڈ اولسن نامی کسان اپنی اہلیہ کلارا کے ساتھ فروخت کی غرض سے مرغیوں کے سر قلم کررہا تھا لیکن اس روز 40یا 50 مرغیوں میں سے ایک مرغا سر قلم ہونے کے باوجود نہیں مرا اور دیگر مرغیوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا۔
لوئیڈ اولسن نے اس سر کٹے مرغے کو رات کیلئے سیبوں کے ڈبے میں رکھ دیا اور اگلی صبح اولسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرغا ابھی تک زندہ تھا، اولسن نے اس مرغے کو مائیک کا نام دیا اور کٹی ہوئی مرغیوں کو فروخت کیلئے بازار لے جانے لگا تو مائیک کو بھی اپنے ساتھ لے گیا، وہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا اس کے پاس سر قلم کیے جانے کے باوجود زندہ مرغا ہے۔
یہ خبر ارد گرد کے علاقوں میں پھیل گئی حتیٰ کہ مقامی اخبار کا ایک رپورٹر اولسن کے انٹرویو کیلئے جاپہنچا اور کچھ ہی روز بعد ایک سرکس کا مالک بھی 300 کلومیٹر طویل راستہ طے کرکے اولسن کے پاس پہنچا اور اسے پپیشکش کی یہ مرغا سرکس پر لے کر چلو اور پیسہ کماؤ، اولسن نے سرکس کے مالک کی پیشکش قبول کرلی۔
لوئیڈ اولسن اور کلارا اس سر کٹے مرغے کے ساتھ امریکا کے کئی شہروں میں سرکس میں شریک ہوئے لیکن بدقسمتی سے ایریزونا کے فینکس میں 1947 کے دوران اس مرغے کی موت واقع ہوگئی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مائیک کو غذا کی نالی سے براہ راست ڈراپر کے ذریعے مائع خوراک یا پانی دیا جاتا تھاجب کہ اس کے حلق کی صفائی سرنج سے کی جاتی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مائیک کے مرنے کی رات اولسن سورہا تھا تو گویا اسے کسی پرندے کے دم گھٹنے کی آواز محسوس ہوئی جس پر اولسن اٹھ بیٹھا، اس نے فوری طور پر سرنج ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے یاد آیا کہ سرنج سرکس پر رہ گئی تھی، اس سے پہلے کہ اولسن مرغے کا حلق صاف کرنے کے لیے کچھ ڈھونڈتا تب تک مرغا مرگیا۔
مائیک کے مرنے کے بعد اولسن کئی سال تک لوگوں کو یہ بتاتا رہا کہ اس نے مائیک کو سرکس والے کو فروخت کردیا ہے لیکن اپنی موت سے قبل اولسن نے اعتراف کیا کہ مائیک مر چکا ہے۔
برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا کی نیو کاسل یونیورسٹی کے ماہرِ مرغ بانی ڈاکٹر ٹوم سملڈرز کا بتانا ہے کہ ’انسان کے سر کٹنے کے ساتھ اس کا دماغ بھی علیحدہ ہو جاتا ہے لیکن مرغوں میں یہ چیز مختلف ہے، مرغوں کے سر کے آگے دماغ کا تھوڑا اور زیادہ دماغ کا حصہ آنکھوں کے پیچھے ہوتا ہے۔‘
برطانوی میڈیا کا بتانا ہے کہ کلہاڑی کے وار سے مائیک کی چونچ، چہرہ، آنکھیں اور کان تو کٹ گئے لیکن اس کا 80 فیصد دماغ اور جسم کو کنٹرول کرنے والے اعضا سلامت رہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس سر کٹے مرغےکے سالٹ لیک سٹی کی یوٹا یونیورسٹی میں بھی کئی ٹیسٹ کیے گئے جس دوران سائنسدانوں نے یہ دیکھنے کے لیے دیگر کئی مرغیوں کے سر بھی کاٹ ڈالے کہ آیا وہ زندہ رہتی ہے یا نہیں لیکن سائنسدان ناکام رہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کلہاڑی سے جس جگہ ضرب اولسن نے لگائی وہ صحیح تھی اور اس وقت خون جمنے سے زیادہ خون نہیں بہا اور مائیک نہیں مرا جب کہ سائنسدانوں کے وار سے ایسا نہیں ہوا ہوگا۔