پاکستان
08 مارچ ، 2013

کراچی دھماکے کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد، 3 دن میں دوبارہ پیش کرنیکا حکم

کراچی دھماکے کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد، 3 دن میں دوبارہ پیش کرنیکا حکم

کراچی … سپریم کورٹ نے عباس ٹاوٴن دھماکے پر تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو 3 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا، سندھ حکومت سے بھی 3 دن میں دوبارہ رپورٹ طلب کرلی گئی، متاثرین کو سرکاری رہائش دینے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک کو مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنالیا گیا۔ کراچی بے امنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں حامد میر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کیپٹل ٹاک کے عباس ٹاوٴن سے متعلق پروگرام کو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم جاری کردیئے۔ کراچی بے امنی عمل درآمد کیس کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت 5 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ سماعت کے دوران اسپیشل برانچ، آئی بی اور رینجرز نے سانحہ عباس ٹاوٴن سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جبکہ حکومت سندھ نے موٴقف اختیار کیا کہ سانحہ کے متاثرین کو معاوضہ اد کیا جاچکا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جیونیوز کے اینکر حامد میرکے پروگرام میں بتایا گیا ہے کہ متاثرین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا، انہوں نے حامد میر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام حقائق پرمبنی تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیپٹل ٹاک کا عباس ٹاوٴن سے متعلق پروگرام بھی دیکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے پروگرام کو عدالتی ریکارڈ بناتے ہوئے کہا کہ کیپٹل ٹاک کے سانحہ عباس ٹاوٴن پروگرام سے ضرورت پڑنے پر مدد لی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ عباس ٹاوٴن پر جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت نہیں، آئی جی صاحب اچھی شہرت کے اہل افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم بنائیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ سانحہ عباس ٹاوٴن سے متعلق حکومتی رپورٹ اطمینان بخش نہیں3 دن میں دوبارہ رپورٹ کراچی رجسٹری میں جمع پیش کی جائے۔ سی ویو شاپنگ مال کیس سے متعلق سوال پر تحقیقاتی حکام نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس ٹیمز پنجاب روانہ ہوگئی ہیں اور مرکزی ملزم عالمگیر کی گرفتاری کیلئے ٹیمز لاہور اور جھنگ بھیجی ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ڈی آئی جی سندھ سے کہا کہ شہر میں 8 ہزار پولیس اہلکار وی آئی پیزکی حفاظت کیلئے ہیں، کیا ٹپی نے 8 موبائلز اور 50 پولس اہلکاروں کیلئے کوئی درخواست دی ہے؟ ۔ ڈی آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ ٹپی کو کس کے کہنے پر 8 موبائل اور 50 پولیس اہلکار دیئے گئے ہیں وہ چیک کرکے بتاوٴں گا۔ اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے دریافت کیا کہ یہ (ٹپی) کون صاحب ہیں کیا یہ کوئی عہدیدار ہیں، جس پر اے آئی جی لیگ نے جواب دیا کہ جی نہیں ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں، ان کے پاس 50 پولیس اہلکار ہیں۔ محمود اختر نقوی نے بتایا کہ اویس ٹپی صدر زرداری کے منہ بولے بھائی اور زمینوں پر قبضے کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اویس ٹپی کی حفاظت کرنی والے 50 اہلکاروں کا خرچ ان سے لیا جانا چاہئے، ایک فرد کو 50، پچاس اہلکار دیں گے تو عوام کو کون تحفظ دے گا، کراچی میں ہر بندہ تھریٹ کا شکار ہے، آپ کس طرح فرق کرتے ہیں کہ کسے سیکیورٹی دی جائے اور کسے نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے نزدیک کوئی وی آئی پی نہیں، ہر شخص کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے، ٹپی کو 50 اہلکار دیئے گئے، اسے کیا تھریٹ ہے عدالت کو بتایا جائے۔ جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ہمیں یہاں پولیسنگ کرانی ہے اور ادھر 8 ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر لگادیئے، جتنے منسٹرز اور عہدیدار ہیں ان کے لئے میرا خیال ہے 2 ہزار پولیس اہلکار کافی ہیں، کل 14 افراد مارے گئے، ان کی ایف آئی آرز عدالت میں پیش کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے ہم آئے ہیں صرف مایوسی کی باتیں ہی سن رہے ہیں، اے ٹی سی عدالتوں میں بندر والے پنجرے میں انسانوں کو رکھا جاتا ہے جو تذلیل ہے، انسداد دہشت گردی کی عدالتیں باورچی نما کمروں میں قائم ہیں۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کو حکم دیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں متبادل جگہوں پر منتقل کی جائیں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں باقاعدہ لاک اپ تعمیر کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے پراسیکوٹر جنرل سندھ کو حکم دیا کہ اے ٹی سی عدالتوں کے ایسے تمام مقدمات کا جائزہ لیں جن میں ملزمان بری ہوئے، سندھ حکومت کو ہدایت جاری کی کہ سندھ میں مزید 15 سے 20 انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کی جائیں۔ بعد ازاں کراچی بے امنی کیس کی سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :