27 اپریل ، 2025
کچھ عرصہ قبل میں نے دریائے سندھ پر ایک کالم لکھا تھا۔ایک درد بھری تحریر، جو پانی کی لہروں میں بکھری سسکیوں کو سمیٹنے کی ایک کاوش تھی۔ آج ایک بار پھر پہلگام کے واقعے کی گونج اسی دریا کی موجوں سے آ ٹکرائی ہے۔ اس کی تہہ میں کچھ ایسا راز چھپا ہے جو صرف سفارتی بیانیوں میں نہیں، بلکہ تاریخ کے لہو رنگ صفحات میں بھی درج ہے۔
سندھ طاس معاہدہ ایک ایسی دستاویز تھا جس نے ستلج، بیاس اور راوی کو مکمل طور پر بھارت کے حوالے کیا، جبکہ جہلم، چناب اور سندھ کے پانیوں کو پاکستان کے مقدر میں لکھا گیا۔ معاہدے کی رو سے بھارت کو ان تین دریاؤں سے صرف گھریلو، صنعتی اور بجلی کی پیداوار کیلئے محدود استفادہ کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ وہ ان کے قدرتی بہاؤ میں خلل نہ ڈالے۔ مگر افسوس، بھارت نے چناب اور جہلم پر ایسے پراجیکٹس تعمیر کیے جو معاہدے کی روح کے سراسر منافی تھے۔ہم نے ان کے خلاف مقدمہ عالمی عدالت میں لڑا، مگر شکست کھا گئے۔ شکست کی وہ وجوہات جن کا تذکرہ ممکن نہیں، وہی آج پھر ہمیں ایک نئے طوفان کی جانب دھکیل رہی ہیں۔
اب بھارت کی نظریں دریائے سندھ پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ لداخ میں مجوزہ پاور پراجیکٹ، جس میں ایک وسیع و عریض جھیل کی تعمیر بھی شامل ہے، معاہدے کی نہ صرف خلاف ورزی ہے بلکہ اس پر بھارت کو بین الاقوامی محاذ پر تنقید کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت ایک ایسا بہانہ چاہتا تھا جو اسے اس منصوبے پر جواز فراہم کرے۔ اور یوں پہلگام کا واقعہ بروقت ایک ’’موقع‘‘ بن کر سامنے آ گیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس واقعے کی ڈوریں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ہاتھ میں ہیں۔
ادھر بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی برسوں سے یہ بیانیہ دہرا رہی ہے کہ آزاد کشمیر بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے۔ انتخابی مہموں میں کیے گئے وعدے اس نظریے کی مزید تصدیق کرتے ہیں، جن میں انہوں نے پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ نے صاف الفاظ میں کہا’’پاکستان کے قبضے والا کشمیر ہمارا تھا، ہے اور رہے گا۔‘‘یہ محض انتخابی نعرے نہیں، بلکہ خطرناک عزائم کی بازگشت ہے۔ ہم پہلگام میں دہشت گردی کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، انکےاہلِ خانہ کے غم میں شریک ہیں، مگر بھارت نے جو طوفانِ الزام اٹھایا ہوا ہے وہ نہایت غیر سنجیدہ اور بچگانہ ہے۔
یاد رہے، بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ، بھارتی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ہمارے پاس اس کا ٹھوس ثبوت موجود ہے۔ کلبھوشن یادیو کا اعتراف، جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دینےکیلئےکافی ہے۔ لیکن ہم نے کبھی اس پر بین الاقوامی سطح پر غیر ضروری چیخ و پکار نہیں کی، نہ ہی جنگی طبل بجائے۔
بھارت اگر سمجھتا ہے کہ یہ جنگ صرف کشمیر کے اندر محدود رہے گی، تو یہ اس کی سنگین خام خیالی ہے۔ اور اگر یہ سمجھتا ہے کہ یہ روایتی جنگ ہو گی، تو یہ بھی ایک فریبِ نظر ہے۔ ہماری عسکری قوت محدود سہی، مگر ہمارے پاس ایسے جدید ہتھیار موجود ہیں جن کا استعمال صرف مجبوری میں کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے کچھ خاص نوعیت کے ایسے ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں جو ایک مخصوص دائرے میں مکمل تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے، لیکن بھارت کے عزائم دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ آگ سے کھیلنے کا تہیہ کیے بیٹھا ہے۔
ایران نے حالیہ تناؤ میں ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے دونوں ممالک کو ’’برادر ہمسائے‘‘ قرار دیکر ثالثی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ دوست ممالک سے رابطے میں ہے، مگر تاحال کسی بھی عالمی طاقت نے باضابطہ طور پر ثالثی کی پیشکش نہیں کی۔ بھارت کا رویہ بھی وہی پرانا ہےکشمیر جیسے معاملات میں کسی تیسرے فریق کو وہ قبول نہیں کرتا۔
اس وقت صورتحال نہایت نازک ہے۔ اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو ایک چنگاری پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پہلگام پر حملہ ایک نئے گروہ ’’کشمیر ریزسٹنس‘‘نے کیا، جس کے مبینہ روابط پاکستان میں موجود تنظیموں سے جوڑے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گروپ کی تربیت پاکستان میں ہوئی، اسلحہ پاکستانی تھا اور مواصلاتی روابط بھی وہیں سے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ ٹیلیفون کالز اور چیٹس کو بھی انٹرسیپٹ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہےمگر تاحال ان تمام دعوؤں کا کوئی ثبوت عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
اس وقت ضرورت ہے فہم و فراست کی، تدبر کی اور امن کے ان چراغوں کی جو نفرت کی آندھیوں میں بھی بجھنے نہ پائیں۔وقت کی نبض پر انگلی رکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر ہمیں پکار رہی ہے۔ سرحدوں کے پار سے اُٹھتی ہوئی گرد، فقط ایک فوجی یا سفارتی چیلنج نہیں، بلکہ قومی وقار اور اجتماعی شعور کا امتحان ہے۔ ایسے میں محض حکومت یا فوج کی پیش قدمی کافی نہیں،یہ وہ لمحہ ہے جب قوم کی تمام قوتوں کو ایک لڑی میں پرو کر دشمن کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ وطنِ عزیز کا ہر فرد، ہر ادارہ، اور ہر جماعت، پاکستان کے دفاع میں ایک آواز ہے۔ قومی یکجہتی محض نعروں میں نہیں، عمل میں بھی نظر آنی چاہیے۔تمام تر اپوزیشن کی آواز کو قومی مشورے میں شریک کیا جائے، تاکہ وہ بھی اپنی بصیرت اور تجربے سے ملک کو اس نازک موڑ پر صحیح سمت میں لے جانے میں کردار ادا کرے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔