14 مارچ ، 2013
کراچی…کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے واضح احکامات پر آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی گھر چلے گئے لیکن بااثر اور مافیہ بنے 15 ٹھیکیدار پولیس افسران نے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود چارج نہیں چھوڑا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ عباس ٹاوٴن اور کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران 8 مارچ کو سندھ پولیس چیف سمیت ڈیڑھ درجن پولیس افسران کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔ آئی جی سندھ فیاض لغاری اور ڈی آئی جی ایسٹ علیم جعفری اور دیگر نے تو فوری طور پر عہدے چھوڑ دیئے لیکن معطل کئے گئے ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار خان نے اپنے عہدے پر دوسرے ایس ایس پی کی تعیناتی کے باوجود اپنا دفتر نہیں چھوڑا اور ہر طرح کے معاملات اپنی ماضی سے ہی چلا رہے ہیں۔سندھ کی بااثر سیاسی مافیا راوٴ انوار کو بے گناہ قرار دلانے کیلئے کمیٹی کی تشکیل کا ڈھونگ رچا لیا ہے،وہ سونے کی چڑیا جیسے عہدے ایسے ہی کیسے جانے دیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے8 مارچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد ٹھیکے پر کام کرنے والے 14 پولیس افسران کو بھی فوری طور پر چارج چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔اعلیٰ عدلیہ کا کونسا حکم اور اس کی کونسی بجا آوری لیکن آج ایک ہفتہ گذر گیا، تمام ٹھیکیدار پولیس افسران نے آج بھی عہدوں کام کر رہے ہیں۔ کیپٹن سلیمان سید محمد، رسول بخش ساند، کمانڈر شوکت علی شاہ، لیفٹیننٹ کرنل ندیم اللہ قاضی، لیفٹیننٹ کرنل واحد، ڈی آئی جی سی آئی اے منظور مغل، تبسم عباسی، محب علی، محمد حسن دل، ایس پی مرزا عبدالمجید، ڈی ایس پی سید صاحب علی شاہ، ڈی ایس پی انور عالم سبحانی، ڈی ایس پی رحمت اللہ اور ڈی ایس پی فتح محمد شامل ہیں۔عہدے کا چارج لینا ہو تو پولیس کنٹرول سے انٹری ہی کافی ہوتی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر چارج چھوڑنے کے لئے نوٹیفکیشن کے اجراء کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔