27 مارچ ، 2013
اسلام آباد…چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے فوج کو سول حکومت کی مدد کے لیے طلب کرنے کا قانون بنانے کی کیا ضرورت تھی، قانون کالعدم قرار دینے سے جو حالات ہوں گے کیا سینیٹرپروفیسر ابراہیم اس کی ذمہ داری قبول کریں گے؟چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اڈیالہ جیل لاپتہ قیدی کیس میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر سینیٹر پروفیسر ابراہیم کی جانب سے سوات اور فاٹا میں فوج کو اختیارات دینے کے قانون کے خلاف آئینی درخوست پر سماعت کی۔ پروفیسر ابراہیم کے وکیل غلام نبی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ یہ قانون آئین کے کم از کم 30 آرٹیکل کی خلاف ورزی کرتا ہے، طیاروں سے بمباری کر کے 200 افراد کو مار دیا جاتا ہے، انہوں نے ڈرون حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے حملوں کی کوئی اجازت نہیں دے سکتا، لیکن اس وقت عدالت کے سامنے ڈرون حملوں کا مقدمہ ہے اور نہ ہی بمباری روکنے کا، عدالت قانون کی آئینی حیثیت کو دیکھ رہی ہے، ڈرون حملوں کے خلاف کیس آیا تو دیکھیں گے کہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے یا نہیں۔ غلام نبی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پھر وہ اپنی درخواست ہی واپس لے لیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے موکل سے مشورہ کر لیں ، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز قانون بنانے کی کیا ضرورت تھی، اسی لیے تمام مواد منگوا رہے ہیں، اس قانون میں سزا دینے کے اختیار کا ذکر ہے مگر فورم نہیں بتایا گیا، عدالت فورم کے قیام کا حکم دے سکتی ہے۔ ایک موقع پر جب غلام نبی ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہیں انسانی حقوق کمیشن کی ماورائے عدالت قتل پر رپورٹ اور جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب جمع کرانے کے لیے مہلت دی جائے۔ تو چیف جسٹس نے کہا دیکھنا ہوگا کہ کتاب لکھنے والا کون ہے اور یہ کتنی مستند ہے۔غلام نبی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جنرل شاہد عزیز دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پرویز مشرف کے سیکنڈ ان کمان رہے ، اور کتاب میں لکھا کہ پرویز مشرف کو مسلمانوں کے قاتل کے طور پر یاد رکھاجائیگا جب کہ فوج سے متعلق بھی کافی باتیں لکھی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اگر کتاب میں فوج سے متعلق بھی باتیں لکھی گئی ہیں تو اْن کا کام ہے کہ مصنف سے پوچھیں ، اداروں کی عزت اور تکریم ہونی چاہئے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ اپنی تمام گزارشات تین دن کے اندر تحریری طور پر جمع کرائیں۔ مقدمے کی مزید سماعت 3 اپریل کو کی جائے گی۔