04 جولائی ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی اور برطانوی میڈیا کے مطابق کراچی اغوا کاری اور بھتہ وصولی کی سب سے بڑی صنعت بن رہا ہے۔ دنیا میں دہشت گردی کی بڑی وجہ کراچی کے وہ جرائم پیشہ گروہ ہیں جنہیں سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ کراچی میں کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے،بزنس مین سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کو ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ رواں برس کے ابتدائی ماہ میں14سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، کراچی میں سالانہ کروڑوں ڈالر بھتے کی نظر ہو جاتا ہے۔کراچی میں50نو گو ایریاز ہیں جہاں پولیس بھی نہیں جا سکتی۔کراچی میں امن وامان کی بد تر صورت حال وزیر اعظم نواز شریف کے لئے کئی چیلنجز میں سے ایک ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر لانے کے لئے نواز شریف کا اسے ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی بھتہ مافیا تاجروں اور دکانداروں سے اسی طرز پر بھتے وصول کرتی ہے جس طرح پولیس برسوں سے وصول کرتی آرہی ہے۔اغوا کاروں کے لئے کراچی سونے کی کان ہے۔کراچی میں دہشت گردی اور زیادہ تر اغوا کاری کا تعلق سیاسی ہے۔کراچی دنیا میں دہشت گردی کا بڑا ذریعہ اس لیے ہے کہ سیاسی جماعتوں نے دیگر گروپوں کو خوفزدہ یامخالفین کو ووٹ دینے والوں کو ڈرانے کے لئے اپنے مسلح ونگز بنائے ہوئے ہیں ۔اکثر ان مسلح گروپوں میں مقامی جرائم پیشہ گروہ ہیں۔جو سیاست سے زیادہ پیسے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔حکومت نے بعض اوقات ہو ش کے ناخن لینے کی کوشش کی اور ان گینگز کو ختم کرنا چاہا ،مگر وہ ایسا نہ کرسکی،کراچی میں ان جرائم پیشہ گروپوں کا خاتمہ مشکل ہے۔پاکستان میں سیاست ایک رابطہ کھیل ہے، سیاسی جماعتوں کا یہ وطیرہ عام ہو رہا ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے لئے جرائم پیشہ گروہوں کو اتحادی رکھتیں ہیں۔ غنڈوں کا سربراہ اکثر سیاست میں داخل ہو تا ہے اور اپنے سرپرست سے زیادہ مطالبات منواتا ہے اس طرح سیاسی جماعتیں بھی جواز پیش کرتی ہیں۔امریکی سائیٹ”اسٹریٹجی پیج“ لکھتا ہے کہکراچی میں اغواکاری کو بڑی صنعت بننے سے روکنے کیلئے پولیس کو حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ہر قسم کے جرائم کی وجہ کراچی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے،گزشتہ چند سالوں میں سندھ میں دہشت گردی سے35سو افراد ہلاک کیے گئے جن میں 95فی صد ہلاکتیں کراچی میں ہوئیں۔ دہشت گردی اور اغوا کاری سے متعلقہ ہلاکتیں زیادہ تر کرائے کے قاتلوں سے کرائی گئیں۔ اغوا کاری پیسہ اکھٹا کرنے کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس پیسے کو دہشت گردی کے حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان بھر میں گزشتہ برس3386اغوا کے واقعات ہوئے جب کہ2011میں2954واقعات سامنے آئے۔رواں برس اس میں تیس فی صد کمی دیکھنے میں آئی جس کی بڑی وجہ پولیس کا بروقت کارروائی ہے۔ کراچی میں30اغوا کاروں کو ہلاک کرکے14مغویوں کا بازیاب کرایا گیا۔ گرفتار اغوا کاروں کا تعلق زیادہ تر قبائلی علاقوں سے ہے،بھارتی اخبار” ٹائمز آف انڈیا“ نے برطانوی خبررساں ادارے کے حوالے سے بتایا کہ جرائم پیشہ افراد کی طرف سے بھتے کے مطالبے پر کراچی میں کاروبار شدید متاثر ہے۔اس کی جہ سے کئی مالکان نئی سرمایہ کاری کرنے میں تاخیر کرنے پر مجبور ہیں۔اسی صورت حال سے تنگ آکر وہ اپنے خاندانوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔سی پی ایل چیف احمد چنائے کے مطابق رواں برس جنوری سے وسط جون تک 630بھتہ کی شکایات موصول ہوئیں، جب کہ گزشتہ پورا سال589شکایات ملی۔ان شکایات میں زیادہ تر ان کی ہیں جنہوں نے بھتہ نہیں دیا۔بھتے کی مد میں کتنا پیسہ جاتا ہے اس کا کوئی ریکارڈ نہیں، پولیس کے مطابق سالانہ کروڑوں ڈالر بھتہ دیا جا رہا ہے اور2013میں اس میں ریکارڈ اضافہ ہوگا۔کراچی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ بھتے نے کاروبار تباہ کردیا ہے۔رپورٹ کے مطابق پولیس نے کراچی کی سیاسی جماعتوں پر بھتہ وصولی کا الزام لگایا جب کہ سیاسی جماعتیں اس کی تردید کرتی ہیں۔2012میں23سو افراد ، 2011میں17سو جب کہ رواں برس14سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کراچی کے پولیس افسر نیاز احمد کے مطابق کراچی میں50نو گو ایریا ز ہیں جہاں پولیس نہیں جا سکتی۔