پاکستان
22 جولائی ، 2013

پاکستانی جولیٹ کی تلاش میں بھارتی رومیو غائب ،امریکی اخبار

کراچی…محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار”دی کرسچن سائنس مانیٹر“ کے مطابق پاکستانی جولیٹ کی تلاش میں بھارتی رومیو غائب ہو گیا۔آن لائن پر دوستی ہوئی اور پھر اس کی تلاش میں وہ اچانک غائب ہو گیا۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کو ملنے کے لئے بہت سی ثقافتی اور قانونی رکاوٹیں ہیں۔اخبار کے مطابق ایک بھارتی مینجمنٹ ٹیچر فیس بک پر پاکستانی لڑکی کے پیار میں اندھا ہو گیا۔ جب ویزا حاصل کرنے سے قاصر ہوگیا تو اس نے بالی وڈ کی فلم کی طرح قدم اٹھایا جو صرف پیسے کی غرض سے ایسے موضوع پر بنائی جاتیں ہیں۔ اپنی محبت کی تلاش میں وہ افغانستان کے راستے پاکستان میں غیر قانونی داخل ہوا۔ لیکن فلموں کے برعکس اس کے سفر کا خاتمہ خوش گوار نہیں ہوا۔ ممبئی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والے26سالہ بھارتی شہری حامد نیہال انصاری نے چار نومبر 2012کو کابل میں ایک ایئر لائن کی نوکری کے لئے انٹرویو دینے گیا۔اسے15نومبر کو واپس بھارت آنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے فون سے بھی کو ئی جواب نہیں ملا، اس کے خاندان نے اس کا کمپیوٹر کھولا، تو اس کی ای میل سے ان کو حقیقت کا پتہ چلا۔ انٹرنیٹ پر وہ پاکستان کے علاقے کوہاٹ کی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ سیکڑوں چیٹنگ کے مکالمے پڑھنے کے بعد انصاری کے خاندان اس نتیجے پر پہنچے کہ لڑکی نے انصاری کو بتایا کہ اس کے والدین نے اس کا رشتہ کردیا ہے اس طرح لڑکی نییہ آن لائن رشتہ ختم کردیا ۔یہ سنتے ہی انصاری نے فیس بک پر کوہاٹ کے نواح کے لوگوں سے دوستی بڑھائی اور اس سلسلے میں مدد چاہی۔لڑکے کی ماں فوزیہ انصاری کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا کسی سازش کا شکار ہوگیا۔ انصاری نے بظاہر کئی ماہ تک کوہاٹ تک پہنچنے کے لئے ویزے کی کوشش کی۔حتی کہ اس نے پشاور کے روٹری کلب کی طرف سے بلانے کا انتظام کیا ۔وہ ڈیسائی سے اس سلسلے میں مدد کے لئے تین بار ملا۔ ڈیسائی کاکہناتھاکہ میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس لڑکی کو بھول جاوٴ لیکن اس کے فیس بک کے دوستوں نے اسے ویزے کے حصول کے لئے ہمت بند ھائیپھر اس نے افغانستان جانے کا منصوبہ بنایا اور طورخم پار کرنے کے بعد کوہاٹ پہنچا وہاں وہ ایک گرافر ڈیزائنر عطا ء الرحمان کے ساتھ دو دن رہا ،لڑکی سے انصاری کی ملاقات غیر واضح ہے۔لڑکی کے والد کا کہناتھا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے اور اس کا کبھی انصاری سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ وہاں سے انصاری کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ فوزیہ انصاری کا کہنا ہے کہ میں آٹھ ماہ سیبیٹے کا انتظار کررہی ہوں،میں نے پاکستانی حکومت اور بھارتی ہائی کمیشن کوخطوط لکھے کہ وہ اس کے بیٹے کا پتہ بتائیں۔جب کہ حکومت پاکستان میرے خطوط کو تسلیم نہیں کرتی۔اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے درمیان دوستی،شادی یا راہ رسم کتنا مشکل ہے، ان کو متحد کرنے میں ثقافتی اور قانونی مشکلات ہیں۔ایک تھنک ٹینک پاک بھارت پیپلز فورم کے رہنما جتن ڈیسائی کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے شہریوں کو ایک دوسرے سے نہ ملنے کے لئے حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور انہیں وہ مجرموں کی طرح سمجھتے ہیں۔ ہر سیاح کو ممکنہ جاسوس یا تیغ زن سمجھا جاتا ہے۔ دونوں طرف مشکوک طرز عمل نے ویزے کے طریقہ کار سخت بنا دیا۔سرحد کے دونوں اطراف ایسے مایوس اقدامات کا سفر جیل پر ختم ہوتا ہے۔دونوں ممالک اپنے شہریوں کو پانچ شہروں تک ویزا دیتے ہیں۔ویزا دینے کے وعدے کے بعد بھی تین ماہ سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے۔دونو ں ممالک کے کاروباری اور شادی شدہ جوڑوں کو ویزا قوانین متاثر کرتے ہیں۔امن کی آشا مہم کی رابطہ کار بینا سرور کا کہنا ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزا نظام دونوں ممالک کے سیکورٹی اور سیاسی اداروں کے درمیان جاری بد اعتمادی اور طاقت کے کھیل کی عکاسی ہے ۔اس وقت پاکستان میں 300 بھارتی قیدی اور بھارت میں 264 پاکستانی قیدی ہیں ۔

مزید خبریں :