پاکستان
20 اکتوبر ، 2013

1998میں اسامہ کے حملے روکنے کے لئے بل کلنٹن نے نواز شریف سے مدد طلب کی تھی

کراچی… محمد رفیق مانگٹ… بھارتی اخبار”ٹائمز آف انڈیا“ لکھتا ہے کہ 1998میں القاعدہ کی طرف سے امریکا کے خلاف حملے شروع ہونے والے تھے ،افغانستان سے اسامہ بن لادن کو ان حملوں سے روکنے کے لئے امریکا نے پاکستان سے مدد کی درخواست کی تھی، اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ وہ طالبان پر اپنے ذاتی اثرو رسوخ کواستعمال میں لاتے ہوئے ان ممکنہ حملوں کو روکنے کے فوری اقدامات کرے۔امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ممکنہ فوری حملوں سے روکنے کے لئے کلنٹن نے اپنے اوول آفس سے نواز شریف کو فون کیا۔ آرکنساس میں لٹل راک میں کلنٹن صدارتی لائبریری میں دستیاب ٹیلی فونک گفتگو کے میمو کے منظر عام پر آنے سے پتہ چلتا ہے کہ کلنٹن نے نواز شریف سے مدد طلب کی کہ وہ طالبان کے ذریعے اسامہ کو امریکا کے خلاف حملوں سے روکے اور طالبان اسامہ کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ نوا ز شریف نے جواب میں کلنٹن سے کہا کہ طالبان بہت ضدی اور غیر معاون ہیں۔ 18دسمبر1998کو بل کلنٹن کی نوا زشریف سے چھ منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو ہوئی ، تین صفحات کی اس گفتگو کو 15سال بعد ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا ہے جس میں بل کلنٹن نے نواز شریف سے کہاکہ مجھے آپ کی ذاتی مدد چاہیے۔آپ طالبان رہنماوٴں سے اپنے تعلقات کو استعمال میں لائیں کہ وہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔دستاویز کے مطابق نواز شریف نے کلنٹن کو بتایا کہ ” میں آپ کی بے چینی اور آپ کی پوزیشن سمجھ سکتا ہوں مسٹر صدر ! آپ جانتے ہیں، واشنگٹن میں آپ کوبتایا تھا کہ طالبان انتہائی ضدی اور غیر تعاون کرنے والے لوگ ہیں۔ اسامہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے متعلق کلنٹن اور سعودی شہزادے ترکی کے ساتھ نواز شریف نے اپنی گزشتہ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان انتہائی مغرور لوگ ہیں اور اسامہ کے متعلق کچھ سننے کا ان کاکوئی امکان نہیں ۔ تاہم نواز شریف نے یقین دلایا کہ وہ اپنے طور ممکنہ طور پر کچھ کریں گے، انہو ں نے کہا کہ ” میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جتنا ہم کرسکتے ہوں ،کریں گے۔ ان (طالبان) سے بات کرنے کے لئے میں اپنے لوگوں کو کل ہی افغانستا ن بھیج دیتا ہوں کہ انہیں بتائیں کہ یہ ان کے مفاد میں نہیں اور اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔اس سے ایک جوابی کارروائی ہوگی اور دنیا کا ردعمل آئے گا“۔ اخبار لکھتا ہے کہ15سال بعد 23اکتوبر کو جب براک اوباما نواز شریف کے ساتھ وائٹ ہاوٴس میں بیٹھیں گے توامریکی صدر مصالحتی عمل کے لئے طالبان سے مذاکرات کو میز پر لانے کے لئے نواز شریف سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو سکے۔ نواز شریف نے اس وقت کلنٹن سے کہا تھا کہ” میں کوشش کروں گا لیکن طالبان ہماری ہر بات نہیں سنتے ،میں ان کے رویے سے مایوس ہوں“۔ کلنٹن نے نواز شریف سے کہا کہ ”ہمارے پاس قابل اعتماد معلومات ہیں کہ 48گھٹنوں میں اسامہ افغانستان سے امریکا پر کارروائی کرنے والا ہے، ممکنہ دو جگہوں پر حملہ کرنے والا ہے۔ کلنٹن نے کہا کہ ”میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ عراق کے ردعمل میں نہیں ہیں بلکہ وہ اس پر پر کام کر رہا ہے ۔ طالبان اس کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکتے ہیں ۔میرے خیال میں پاکستان کا طالبان پر کافی اثرو رسوخ ہے۔اگر یہ حملہ ہو گیا تو یہ عملی طور پر ناممکن ہو جائے گا ۔ ہم نے طا لبان کو کئی بار خبر دار کیا ہے کہ وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے ہم دوبارہ انہیں خبردار کرتے ہیں ۔آپ انہیں فوری روکیں، اور ہم سعودی عرب سے بھی بات کرر ہے ہیں “۔ کلنٹن نے کہا کہ ” تمہیں بتانا چاہتا ہوں میں بہت، بہت اس پر فکر مند ہوں اور اس کے نتائج کے بارے میں بھی“۔

مزید خبریں :