پاکستان
02 دسمبر ، 2013

آرٹس کونسل کا ”چار روزہ جشن اردو“ حسین یادیں لئے اختتام پذیر

 آرٹس کونسل کا ”چار روزہ جشن اردو“ حسین یادیں لئے اختتام پذیر

کراچی … اختر علی اختر… آرٹس کونسل کا ”چار روزہ جشن اردو“ اپنے مختلف رنگوں اورحسین یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔کانفرنس کے آخری دن سیاست دانوں،فنکاروں،ادیبوں،شاعروں، مصوروں،افسانہ نگاروں اور اہم شخصیات کا میلہ لگا رہا۔ اس موقع پر اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا کہ ہمیں اپنی تہذیب نہیں بھولنی چاہئے، ہماری ثقافتی جڑیں 500 قبل مسیح کی قدیم تہذیب موہن جو دڑو سے جڑی ہوئی ہیں، اردو اسی کا تسلسل ہے ۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی گزشتہ 6 سالوں سے بین الاقوامی اردو کانفرنس کا انعقاد اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے سود مند ثابت ہورہا ہے اس نوعیت کی کانفرنس کا انعقاد لاڑکانہ میں بھی ہونا چاہئے تاکہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگوں کی ملاقاتیں ملک کے نامور شاعروں،ادیبوں اور دانشوروں سے ممکن ہوسکے۔ اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری، ممتاز سفر نامہ نگار انتظار حسین، بھارت سے آئے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی،امریکا سے آئے ہوئے رضا علی عابدی،ڈاکٹر مسعود اشعر، ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین، آکسفورڈ یونیورسٹی کی امینہ سید، بھارت کے ادیب ستیہ پال آنند، ڈاکٹرخورشید رضوی،صدر آرٹس کونسل احمد شاہ، نائب صدر محمود احمد خان، سیکریٹری پروفیسر اعجاز فاروقی بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیئے ۔ آغا سراج درانی نے مزید کہا کہ اردو ایک قدیم زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رابطے کی زبان بھی کہلاتی ہے ۔ ان نا مساعد حالات میں اردو کانفرنس کا انعقاد کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا، اس کے فروغ اور ترویج کے لیے حکومتی سطح پر بھی کام ہونے چاہئیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے گھٹن زدہ ماحول میں اردو کانفرنس تازہ ہوا کا جھونکا ہے ۔ اردو کو جو جاذبیت کراچی میں ملی وہ قابل فخر ہے۔ عوامی سطح پر اردو نے اس شہر میں جدت حاصل کی چار روزہ کانفرنس نے ہمارے موقف کی وکالت کی ہے ۔ اردو کی خوبی یہ ہے کہ یہ جس قالب میں جاتی ہے، اس قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ اردو اپنے دامن میں جو تہذیب لائی ہے اس کی ترقی اور ترویج بہت ضروری ہے آج اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایک ضروری بات بتانا چاہتا ہوں کہ سیاست میں یا تو دوستی ہوتی ہے یا پھر کُٹی ہوتی ہے دشمنی کبھی نہیں ہوتی اور دشمنی کسی حال میں نہیں ہونی چاہیئے۔ آج ہم سیاست دان آپکو اس بات کا یقین دلاتے ہیں ۔پاک بھارت تعلقات بہت ضروری ہیں کیونکہ لتا کی آواز کو میری سماعت تک آنے سے کوئی نہیں روک سکتا اسی طرح بھارت میں میانداد کے شارجہ میں لگائے گئے چھکے کو کوئی ممبئی والوں نے بھی خوشی سے محسوس کیا۔پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کراچی میں ایک ہفتے خوابوں کی طرح گزر گیا۔کانفرنس کے چار دن کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا میں بھارت سے خالی ہاتھ آیا تھا مگر خالی ہاتھ واپس نہیں جارہا ہوں ۔ ادب اور آرٹ کے ذریعے ہم تک آئی ہے وہ جمہوریت کی طرح ہوتی ہے ۔ادب کے تراش خراش کے لئے اس طرح کی کانفرنس بھی ضرروی ہیں ۔ ممتاز سفر نامہ نگار انتظار حسین نے کہا کہ میں کراچی والوں کو اردو کانفرنس کا زبردست انعقاد کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں یہ کانفرنس دہشت گردی کے موسم میں محبت کا پیغام ثابت ہوئی ہے ۔اس طرح کی اردو کانفرنس کا ہم لاہور والے ابھی صرف تصور ہی کر رہے ہیں ۔اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے فیصل سبزواری نے مختلف شعراء کے منتخب اشعار پیش کر کے محفل کے رنگوں میں اضافہ کیا۔ حیدر عباس رضوی نے کہا کہ انتظار حسین کی باتیں سن کر میرا سینہ خوشی سے پھول گیا ہے یہ کانفرنس سال ہا سال بہتر سے بہتر ہوتی جارہی ہے یہ شہر کراچی دنیا کا عظیم و ادبی ثقافتی شہر ہے دنیا کی کسی تہذیب کو طاقت کے ذریعے نہیں کچلا جاسکتا اردو کو کوئی نہیں مار سکتا اور نہ اردو سے وابستہ تہذیب کو کوئی مار سکتا ہے ۔ سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر اردو زبان کے حوالے سے مختلف قراردادیں پیش کی گئیں جن کو شرکاء کی بڑی تعداد نے منظورکیا ۔

منظور کی گئی قراردادیں
چھٹی عالمی اردو کانفرنس پاکستان آرٹس کونسل (کراچی )
1۔جنوبی ایشیا اور دنیا کے دوسرے ملکو ں سے تعلق رکھنے والے ہم اہل قلم اس امر پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ امن انسانی معاشرے کی ناگریز ضرورت ہے اور پر امن زندگی گزارنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ۔جس کے بغیر انسا ن کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما ناممکن ہے ۔ہم تمام قلمکار اس چھٹی عالمی اردو کانفر نس کے ذریعے جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کا اعلان کرتے ہیں ۔
2۔ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کی درس گاہوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے ۔ہم تمام اہل ادب انگریزی زبان کی اہمیت کے منکر نہیں ہیں ،نئی تہذیب اور نئے علوم سے واقفیت کیلئے دنیا کی دوسری بڑی زبانیں بہت اہمیت رکھتی ہیں ۔لیکن ہمیں اپنی تہذیبی شناخت اردو کو ہی بنانا چاہئے ۔دنیا میں انہی قوموں نے ترقی کی ہے جنہوں نے اپنی زبان پر فخر کیا اور اسے ذریعہ علم بنایا ۔
3۔ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستانی معاشرے سے تشد د اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے افہام و تفہیم اور مذاکرات و مقالمے کا راستہ اختیارکیا جائے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں فنون لطیفہ کو فروغ دے اور تخلیقی فنکاروں کی ہر طرح سے سرپرستی کرے تاکہ ایک روشن خیال ،یکجہتی اور رواداری پر مبنی معاشرہ قائم ہوسکے ۔
4۔ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ حسب توفیق اپنے چینلز پر علمی اور ادبی پروگراموں کو جگہ دیں اور اپنے ”ٹکرز“میں ادبی رسالوں کی اشاعت کی اطلاع ناظر ین کو فراہم کریں ۔
5۔ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کتابوں،رسائل اور ادیبوں کی آمد و رفت سہل اور آسان بنایا جائے ۔ادیبوں اور فنکارروں کو پولیس رپورٹنگ سے متشنیٰ ویز ے فراہم کئے جائیں ۔بیرون ملک کتابوں کی ترسیل کیلئے ڈاک خرچے کو کم کیا جائے ۔
6۔کراچی میں معروف سرکاری لائبریریاں جو فنڈ ز نہ ہونے کی وجہ سے بر باد ہوگئی ہیں ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت وقت ان معروف تاریخی کتب خانوں کو دوبارہ سے زندہ کرے اور ان میں موجود لاکھوں قیمتی کتابوں کو ضائع ہونے سے بچائے ۔کیونکہ جن معاشروں میں کتب خانے زوال پذیر ہوجاتے ہیں وہ معاشرے جہالت اور تباہی کے اندھیروں میں ہمیشہ کیلئے کھو جاتے ہیں ۔
7۔دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری سطح پر دنیا کی عظیم کتابوں کے ترجمے کئے جاتے ہیں جو اس قوم اور ملک کی اجتماعی دانش کو وسیع اور معتبر بناتے ہیں ۔پاکستان میں ترجمے کا کام انفرادی کوششوں کے تحت ہورہا ہے لیکن حکومت اس اہم ترین علمی و تہذیبی فریضے سے غافل ہے ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ دنیاکی دوسری زبانوں کی بڑی اور اہم کتب کو سرکاری سرپرستی میں اردو میں منتقل کیا جائے ۔اس کیلئے وفاقی سطح پر ایک ”دارالترجمہ “ قائم کیا جائے ۔
8۔پاکستان میں عورتو ں پر تشدد کے خاتمے ،خو اتین کی تعلیم ،معاشی طور پر پس ماندہ علاقوں کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات پر خصوصی توجہ ان کی اشاعت کا بند وبست ،اقلیتوں کے عقائد اور ان کی عبادت گاہوں کا احترام ،معاشرے میں قوت کا برداشت کا قیام ۔پاکستان کی ادیب براداری کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔ہم سارے ملک کے اہل قلم سے التماس کرتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہیں اور جس صنف میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت استعمال کررہے ہیں ۔ان موضاعات کو ضرور اپنی تحریروں میں جگہ دیں ۔یہی ہماری روح عصر کا تقاضہ ہے ۔
9ْ۔پاکستان آرٹس کونسل کراچی کی چھٹی عالمی کانفرنس کے اسٹیج سے ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ بچوں کیلئے ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کی حکومتی ثقافتی اور علمی و ادبی ادارے خصوصی سرپر ستی کریں ۔بچوں کے ادب کو فروغ دیا جائے ۔
10۔شرکاء کانفرنس اس امر پر کہ جامعہ کراچی کے بی کام کے نصاب سے اردو کو خارج کردیا گیا ۔اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر بی کام کے نصاب میں اردو کو شامل کیا جائے ۔
11۔شرکاء کانفرنس پاکستان میں موجود تمام کثیر القومی صنعتی اور تجارتی اداروں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ کھلاڑیوں کی طرح اہل قلم کے سروں پر بھی اپنا دست شفقت رکھیں ۔تجارتی ادارے ہر سال کی اہم کتابوں پر انعامات کا سلسلہ بھی شروع کریں ۔جیساکہ چند تجارتی اداروں نے اسکا آغاز کیا ہے ۔
12۔ہم اس چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں جنوبی ایشیا کے اہل قلم کی ایک مشترک عالمی ،ادبی تنظیم کے قیام کی تجویز بھی پیش کرتے ہیں ۔


مزید خبریں :