04 دسمبر ، 2013
کراچی…کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا تیسرا مرحلہ نمائشی ثابت ہورہا ہے ،ایک بار پھرٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور سرگرم ہوگئے ہیں۔ سی پی ایل سی کے اعدادوشمار کے مطابق صرف نومبر میں 200 افراد کوقتل کیا گیا،کہیں ایسا تو نہیں کہ اندھا دھند سرجری آپریشن کرنیوالے مسیحاوٴں کی کمائی کا ذریعہ بن گئی ہے؟کراچی میں چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ تین ماہ سے جاری ہے، ٹارگٹڈ آپریشن میں پولیس اور رینجرزروزانہ درجنوں افراد حراست میں لے رہی ہیں ،مگر جرائم اور خصوصاً قتل کی وارداتوں کا گراف نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا۔آپریشن شروع ہونے کے بعدسے ستمبر میں 155،اکتوبر میں 174اور گزشتہ ماہ نومبر کے تیس دنوں میں 200افراد کی زندگیاں چھین لی گئیں۔جبکہ دسمبر کے تو ابتدائی تین روز ہی کافی بھاری گزرے ہیں،تین ماہ میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور سنگین جرائم میں ملوث دس ہزار کے قریب ملزمان کی گرفتار یوں، ہزاروں ہتھیاروں کی برآمدگی اور رینجرز کے اضافی اختیارات کے باوجود ملزمان کی پستولیں اوربندوقیں خاموش نہیں ہو رہی ہیں ،قتل و غارت اور اسٹریٹ کرائم کے خوف سے لوگ سر شام ہی گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ،10ہزار میں سے کتنے ملزمان کے خلاف مقدمات درج ہوئے؟، کتنے ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا گیا؟، جن ملزمان کے خلاف مقدمے نہیں ، وہ کہاں ہیں ؟ کتنے ملزمان شک کی بنیاد پر اٹھائے گئے ؟ کتنے ملزمان کو مک مکاکے بعد چھوڑ دیا گیا؟اور سب سے بڑھ کر جن ملزمان کوعدالتوں میں پیش نہیں کیا گیاان کے اہل خانہ اپنے اسیروں کی بے گناہی کہاں پیش کریں؟دہشتگردوں اور جرائم پیشہ ناسوروں کیخلاف آپریشن درست قدم ہے لیکن احتیاط لازم ہے کہ سرجری ان کی نہ ہو جو کراچی کی بیماری کے ذمہ دار نہیں۔