پاکستان
29 جنوری ، 2014

مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر تجزیہ کاروں کا ملا جلا رد عمل!

مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر تجزیہ کاروں کا ملا جلا رد عمل!

کراچی…حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر تجزیہ کاروں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ کہیں کامیابی کی امید ہے تو کہیں ناکامی کا خدشہ ہے۔ سینیئر تجزیہ کار اور اینکر پرسن کامران خان کا کہنا تھاکہ مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ حکومت آپریشن کے علاوہ بھی دیگر راستوں سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتی ہے۔ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھاکہ مذکاراتی کمیٹی کی تشکیل سے پہلے حکومت نے فوجی قیادت اور خیبر پختونخوا حکومت کو اعتماد میں لیا جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ معتبر ارکان پر مشتمل کمیٹی کا کردار مذاکراتی عمل میں فائدہ مند ہونا مشکل ہے۔بیورو چیف اسلام آباد رانا جواد کا کہنا تھا کہ حکومت، بظاہر شرپسند عناصر کو ایک موقع اور دینا چاہتی ہے۔سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کمیٹی کا مقصد اگر حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان ثالثی کا ہے تو طالبان کا کمیٹی کے ارکان پر اتفاق بھی ضروری ہے۔ سینیئر صحافی آفتاب اقبال کا کہنا تھا کہ مذاکرات سیاسی قیادت کا کام ہے، اس پورے معاملے میں حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ سینیئر صحافی افتخار احمد کا کہنا تھا کہ یہ خوشی کی بات ہے وزیراعظم کو اپوزیشن اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان کے اس فیصلے پر سپورٹ ملی۔ سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کیلئے اچھا موقع ہے وہ مذاکرات کو آگے بڑھائیں۔

مزید خبریں :