11 مارچ ، 2014
تھرپارکر…تھرکے گیتوں کی اپنی ہی پہچان ہے، یہ گیت اگر ساون رت کے ہوں تو گھٹائیں بھی رم جھم کرنے لگتی ہیں مگر خشک سالی کے عذاب میں ان کے بول نوحہ بن جاتے ہیں۔ ان کچے آشیانوں کے ریتیلے آنگن میں گیت گانے والی خواتین کی آواز میں رنج والم کی وہ پکار ہے جسے سن کر فضائیں بھی بین کرتی محسوس ہوتی ہیں۔دل کو دہلا دینے والی ان صداوٴں میں دراصل تھر کی دھرتی اور اس کے بدحال مکینوں کا رونا رویا جا رہا ہے اور ہر گذرتے لمحے کے ساتھ اس گاوٴں کی عورتیں ایک ایک کر کے اس پکار میں شامل ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کے مصائب بھی سنگین ہیں اور حالات بھی۔گیت کے معنی ہیں کہ ہم پہلے ان گیتوں میں اپنے موروں کو روتے تھے پھر مویشیوں کو اور اب ہمارے بچے مر رہے ہیں ،ہم اس دکھ میں یہ گیت گا رہے ہیں۔تھر کے صحرا میں اس سال خشک سالی نے کچھ اس طرح اپنے پنجے گاڑے کہ پہلے ہی بھوک سے بدحال مکینوں کو بے حال کر دیا۔علاقہ مکینوں نے ہمیشہ روکھی سوکھی پہ صبر شکر کیا ہے مگر اس علاقے کے فطری حسن اور اپنے مال مویشیوں سے محرومی کے بعد اب ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنے معصوم بچوں کی جدائی کا دکھ برداشت کر سکیں۔موسم بہار میں ہریالی کے گیت گانے والی یہ خواتین آج اپنی بھوک بدحالی اوراپنے بچوں کی ہلاکتوں پہ نوحہ کناں دکھائی دیتی ہیں۔