07 اپریل ، 2014
کراچی… محمد رفیق مانگٹ… امریکی جریدہ”فارن پالیسی“ لکھتا ہے کہ حکومت مشرف کو جج کے سامنے کھڑا کرنے کے قابل ہو گئی یہی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔اس کیس میں حکومت کی دلچسپی کا جہاں تک تعلق ہے تو جزوی طور پر اس مقدمے سے نواز شریف نہ صرف ان طالح آزماوٴں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے بلکہ فوج کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ فوجی بغاوتوں سے اقتدار پر قبضہ کر کے سزاوٴں سے بچنے کے دن گزر گئے اور ان کی حکومت کے معاملات میں زیادہ فوجی مداخلت کو ہلکا نہیں لیا جائے گا۔ فوج نے مبینہ طور پر مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کو روکنے کے لئے پردے کے پیچھے کام کیا۔راحیل شریف کے بڑے بھائی شہید شبیر شریف مشرف کے کورس میٹ تھے۔جب شبیر 1971میں شہید ہوئے تو مبینہ طور پر مشرف نے راحیل شریف کو اپنے ونگ میں لیااور یہاں تک کہ 2002 ء میں انہیں اپنا ملٹری سیکرٹری مقرر کیا۔جنرل شریف کی شدید خواہش ہے کہ فرد جرم اور ممکنہ سزا سے ان کے اسٹیشن کے اختیارات میں کمی نہ ہو۔اس طرح کی مثال سے مستقبل کے فوجی سربراہوں کے طرز عمل کی مذمت ہو یا کسی ادارے کی طرف سے ان کے کسی عمل کو سزا ہو۔وزیر اعظم نواز شریف فوج کواپنے دائرہ اختیار میں رکھنا چاہتے ہیں۔لیکن وہ ادارے کے ساتھ کسی براہ راست تصادم سے گریز کرتے ہیں۔مشرف کے حامی کوئی معاہدہ چاہتے ہیں جس سے مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت مل جائے۔ جس کا جواز وہ بیمار ماں یا اپنے عارضہ قلب کے علاج پیش کرتے ہیں ،تاہم مشرف کی جلاوطنی سے مشرف اور فوج گریز سے بچ جائیں گے۔ وزارت داخلہ نے ان کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈالا ہے۔اور پرویز مشرف کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے کا سیاسی فیصلہ بنیادی طور پر وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔طالبان کے ساتھ مذاکرات پر فوج اور حکومت میں پہلے ہی دوریا ں ہیں۔مشرف کیس کھینچا تانی کا ایک اضافی نقطہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف فوج کے ساتھ تعلقات کو توازن میں رکھنے کیلئے سخت محنت کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آخر کار پاکستان نے 2007 میں ملکی آئین معطل کرنے پر سابق صدراور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف پرغداری کیس میں فرد جرم عائد کردی۔مشرف پر فرد جرم عائد ہونے سے پاکستان کی طاقتور فوج اور نسبتاً نئی سویلین حکومت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ جو پاکستان کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت میں مشغول تھے انہیں فوج کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے یا سویلین حکومت سے۔مشرف نے حیران کن طور پران تمام الزامات کی صحت سے انکار کیا،۔ کئی ماہ تک مشرف مختلف حیلے بہانوں سے عدالت سے بچنے کا کھیل کھیلتے رہے۔وہ دعویٰ کرتے رہے کہ انہیں گھر سے عدالت جاتے ہوئے جان کا خطرہ ہے کئی دہشت گرد گروپ ان کی جان لینا چاہتے ہیں۔ مشرف کی سیکورٹی خدشات نے جب عدلیہ کا صبر ختم کردیا تو مشرف بالآخر خصوصی عدالت کا سامناکرنے کے لئے گھر سے نکلے تو ان کی گاڑی غیر متوقع طور پر وسط راستے میں ایک فوجی اسپتال کی طرف موڑ دی۔ مشرف نے ہر ممکن طریقے سے عدالت سے بچنے کی کوشش کی لیکن کسی طرح بھی اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔سپریم کورٹ پہلے ہی ان کے 2007کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ کسی بھی مقدمے کی سماعت تیز ہو جائے گی اور ممکنہ طور پر ان کو عمر قید یا پھانسی خطرناک پس منظر رکھتی ہے۔