11 اپریل ، 2014
کراچی…کراچی میں ایک مرتبہ پھر ٹارگٹ کلنگ میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ روز سے اب تک 15افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ٹارگٹڈ آپریشن کوسات ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے تاہم قتل و غارت گری پولیس ، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔دو کروڑ آبادی کی میٹروپولیٹن سٹی کراچی روشنیوں کے بعد اب گولیوں کا شہر بن چکا ہے۔جہاں 5 ستمبر2013 سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو سات ماہ گزر چکے ہیں لیکن دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز جب چاہتے ہیں،جہاں چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کبھی سیاسی بنیاد پر تو کبھی فرقہ واریت وجہ بنتی ہے۔سندھ میں پولیس کا بجٹ 42 ارب 62 کروڑسے زائد رینجرز کا بجٹ ایک ارب 43 کروڑ سے زائد ، فرنٹیئر کانسٹبلری کے لئے 89 کروڑ سے زائد رقم خرچ کی جارہی ہے، قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ہنگامی بنیاد پر یا پھر بیرون ملک سے ملنے والی امداد اپنی جگہ پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بجٹ کا تو حساب ہی الگ ہے لیکن دہشت گردی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ حکومت سندھ اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں 56 فیصد ، قتل کی وارداتوں میں 26 فیصد اور بھتا خوری میں بارہ فیصد کمی آئی ہے،فرائض کی ادائیگی میں 2014 کے ابتدائی تین ماہ میں 45 سے زائد پولیس افسران و اہلکار شہید ہوگئے۔سوال یہ ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کیا ہے؟پولیس کے پاس جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ ہے تو ان پر مضبوط ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جارہا؟ دہشت گردوں کواسلحہ ، ہینڈگرینیڈ اور گولیاں کون فراہم کررہا ہے؟غیرقانونی اسلحے ذخائر پر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ؟ قومی خزانے سے عوام کے ٹیکس سے حاصل اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود عوام کوتحفظ کیوں نہیں مل رہا۔