24 جون ، 2014
اسلام آباد........ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ چولستان ، تھرپارکر اور آواران میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، حکومتیں کہتی ہیں آٹے کی تقسیم اور سبسڈی کے تعین میں ایک سال لگ سکتا ہے،ایک دن کا تو روزہ ہوتا ہے ، آپ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ سال بھر کا روزہ رکھ لیں۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آٹے کی قیمتوں سےمتعلق کیس کی سماعت کی ۔وفاقی سیکرٹری فوڈ اینڈ سیکورٹی سیرت اصغر نے جامع رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا کہ حالیہ بجٹ میں فوڈ آئٹمز کی قیمتیں کم کرنے کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔جسٹس جوادخواجہ نے ریمارکس دیئے کہ مخیر حضرات حکومتی سبسڈیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں، معاملہ تشویشناک ہے۔وفاقی سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے کہا کہ آٹا کی تقسیم صوبوں کا کام ہے ، وفاق کا نہیں ،وفاق نے تمام صوبائی حکام کو فوڈ آئٹمز پر سبسڈی سے آگاہ کیا تو صوبائی حکام نے بتایا کہ آٹے کی تقسیم اور سبسڈی کے باقاعدہ تعین پر ایک سال لگ سکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ فٹ بال یا والی بال نہیں، وفاق کہتا ہے کہ صوبے دیکھیں گے، صوبے کہتے ہیں کہ وفاق دیکھے،پاکستان میں کیا کیا خرچے نہیں ہوتے، مگر حقیقت میں پاکستان میں پونے تین کروڑ افراد کو مناسب غذا نہیں مل رہی، عدالت کو رپورٹس سے کوئی دل چسپی نہیں دو ٹوک بتائیں کہ عملی اقدامات کب تک کریں گے،کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے بعد ہو گی۔