11 اگست ، 2014
کراچی.... رفیق مانگٹ....... برطانوی اخبار’’گارجین ‘‘ لکھتاہے کہ انتخابی دھاندلی سے تحریک انصاف کے کامیاب نہ ہونے کے عمران خان کے موقف سے تجزیہ کار اور سفارت کار قائل نہیں ہوسکے۔بین الاقوامی مبصرین نے پاکستان کے ان انتخابات کو تمام گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں شفاف اور بہتر قرار دیا۔عمران خان کے پاس ایسا کوئی قانونی راستہ نہیں جس سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔عمران خان کے نام نہاد آزادی مارچ حکومت کے لئے سنجیدہ آلارم ہے۔ اقتدار کے14 ماہ کے دوران ر فوج، طاہر القادری اور عمران خان نے نواز شریف کی اتھارٹی کو متاثر کیا۔حکومت کو خدشہ کہ اسلام آباد میں مظاہرین سے تصادم جنم لے سکتا ہے جو فوج کے لئے راستہ کھول سکتا ہے۔ اخبار نے طاہر القادری کو متنازع عالم، عمران خان کی مضحکہ خیزیاں اور آزاد ی مارچ کو نام نہاد قرار دیا ۔ اخبار نے پاکستان کی احتجاجی سیاست پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ عمران خان کے رویے نے بہت سے تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کو حیرت میں ڈال دیا جو اس پر قائل نہیں ہو سکے کہ انتخابی خرابیوں اور دھاندلیوں سے تحریک انصاف کو کامیابی سے محروم کیاگیا۔ 2013کے عام انتخابات کو جج کرنےوالے بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو تمام گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں شفاف اور بہتر قرار دیا ہے۔مبصرین اشارہ دیتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایسا کوئی قانونی راستہ نہیں جس سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔ کیونکہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت ہے اور حکومت کو باہر نکالنے کے لئے اس کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا کوئی امکان نہیں۔ بہر حال لاہور سے اسلام آبا د کے لئے عمران خان کے نام نہاد آزادی مارچ حکومت کے لئے سنجیدہ آلارم ہیں۔مارچ کو روکنے کےلئے سخت اقدا م اٹھائے گئے ہیں ۔ناقدین کا کہنا ہے حکومت نے صورت حال کو مس ہینڈل کیا۔ سخت مون سون کے دوران مظاہروں کی اجازت دے دینی چاہیے تھی۔حکومت کو خدشہ ہے کہ اسلام آباد میں ہزاروں کی تعد ادمیں مظاہرین سے تصادم جنم لے سکتا ہے۔ جو فوج کے لئے راستہ کھول سکتا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ عام انتخابات میںبھاری اکثریت کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آنے والے نوازشریف کو ابھی ایک سال سے تھوڑا عرصہ زیادہ ہوا تھا کہ افراتفری اور سیاسی بے یقینی آگئی ۔ نواز شریف کی بھاری پارلیمانی اکثریت سے پاکستان پر نظر رکھنے والوں میں ایک مثبت امید پیدا ہو ئی ، جو مشکل سے ہی ایک نئے وزیر اعظم سے امید لگا تے ہیں کہ ان کے پاس کمزور معیشت کی بحالی، بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے اور اسلامی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے مقاصد کو حاصل کرنے کا مینڈیٹ ہے۔لیکن اقتدار کے14 ماہ کے دوران پاکستان کی طاقتور فوج، کینیڈا بیس عالم طاہر القادری اور عمران خان نے ان کی اتھارٹی کو متاثر کیا۔اخبار لکھتا ہے کہ رواں ہفتے پا کستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیاسی بحران کی موجودگی میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے جارہا ہے جب شہروں میں پٹرول کی فراہمی بند ہو چکی ہے، لاہور میں ایک متنازع عالم کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ اس صورت حال میں عمران خان نے نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد کو جام کرنے کا اعلان کیا ہے، حکومت کے مستعفی اور نئے انتخابات کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اخبار نے سینئر تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود کے حوالے سے لکھا کہ ہم نے فوری طور پر انتخابی نتائج کو مسترد نہیں کیا ہم نے سوچا کہ عدالتوں سے ہمیں ریلیف مل سکتا ہے لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر چیز جس کے لئے ہم نے پارلیمیٹ میں کوشش کی اور عدالتوں نے کام نہیں کیااور ہمارے پاس ایک بڑا احتجاج کرنے کے سوا کوئی سہارا نہیں ۔طاہر القادری نے بھی نواز شریف کے اختیارات کو چیلنج کر رکھا ہے۔قادری نے اگست کے اختتام سے پہلے حکومت کے گر نے کی پیش گوئی کی ہے ۔ اخبار نے اپنی ابتدائی رپورٹ میںطاہر القادری کو متنازع عالم، عمران خان کی مضحکہ خیزیاں اور آزاد ی مارچ کو نام نہاد قرار دیا ۔ تاہم کچھ گھنٹوںبعد مضحکہ خیزی کوتبدیل کرکےرویے کا ذکر کیا گیا۔