15 اگست ، 2014
کراچی… رفیق مانگٹ… امریکی اخبار’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ پاکستان کی سیاسی صورت حال پر لکھتاہے کہ عمران خان ہزاروں مظاہرین کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔ بڑھتے تصادم نے فوج کے سیاسی کردار کی تجدید کردی ہے۔جس سے جوہری ہتھیاروں سے مسلح ملک کے جمہوری اداروں کی مضبوطی پرکچھ شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔سیاست کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے فوج مظاہرین اور حکومت کے درمیان ثالثی کے کردار ادا کر رہی ہے۔ خاص طور پر کچھ سیاستدان آرمی چیف کے درمیان ایک روز قبل جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، اور شہباز شریف کی ملاقات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔اس ملاقات کے بعدوزیر داخلہ نے کہا کہ اس پورے معاملے پر پاکستان کی مسلح افواج ملوث نہیں ہیں. اخبار نے لکھا کہ اس پر فوج نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔اس سیاسی تنازع کے حل کے لئے مظاہرین بھی فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن نوازشریف کوپارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے تجزیہ کار کہتے ہیں یہ صرف فوجی مداخلت سے ہی ہو سکتا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک Stratfor کے نائب صدر کامران بخاری کہتے ہیں کہ فوج اقتدار نہیں سنبھالنا چاہتی۔خاص کر قبائلی علاقوں میں فوج عسکریت پسندوں کے ساتھ آپریشن میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب حکومت نے عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے خطرات سے نمٹنے کی کوشش میں ہے اور ، فوج کے پاس سسٹمیٹک ریفری کا کردار آ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوج جمہوری استحکام نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن آئینی عمل کو بھی اتنا اپ سیٹ نہیں کرسکتی کہ جمہوریہ خطرے میں پڑ جائے۔ براہ راست فوج کی حکومت2008میں ختم ہوئی ، باضابطہ طور پر جب وہ اقتدار پر نہیں ہوتی تو وہ پردے کے پیچھے اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھتی ہے لیکن اس کردار کو اس وقت دھچکا لگا جب 2013کے انتخابات میں نواز شریف نے واضح اکثریت حاصل کی۔2008 اور 2013 کے درمیان اقتدار صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ایک کمزور اتحا د کے پاس تھا جس نے فوری طور پر فوج کو غیر ملکی اور سیکورٹی کی پالیسیوں کا کنٹرول سونپ دیا تھا۔