15 اگست ، 2014
کراچی…رفیق مانگٹ…برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ نے ’’خان کے غضب‘‘نامی مضمون میں لکھا ہے کہ سابق کرکٹر اور ایک عالم ملک کی نازک جمہوریت کو لپیٹنے کی سازش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے افغانستان،بھارت ،مشرف اور جیوٹی وی کے ایشوز پر فوج کے ساتھ اختلافات ہیں۔ ایک سابق پلے بوائے کرکٹر عمران خان ایسے سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جواچھے نظریات رکھنے کی بجائے لوگوں کے جذبات کو ابھار کر حمایت حاصل کرتا ہے۔وہ فوج کی حمایت سے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کے پر تول رہا ہے۔ 2011میں قاہرہ کے تحریر چوک کی طرح عمران خان کے ساتھی شاطرانہ انداز میں احتجاج کو طوالت دیں گے۔عمران خان نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے انہیں کامیابی سے محروم کیا گیا۔ اگرچہ کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر باقاعدگیوں کی شکایات سامنے آئیں لیکن نہ کسی پاکستانی اور نہ ہی بین الاقوامی انتخابی مبصر نے اتنے وسیع پیمانے کی دھاندلی کی نشاندہی کی۔ عمران خان کے مارچ کی طرح ماضی کے لانگ مارچز کی حقیقت یہ رہی کہ انہوں نے حکومتوں کو عدم استحکام کاشکار کرکے آخر کار حکومتوں کوختم کردیا۔ اس مارچ کی جو بات ناقابل یقین ہے وہ طاہر القادری کا اس میں کودنا ہے۔جریدے کے مطابق اگر حالات پر تشدد ہو گئے تو فوج کے آنے کے امکان ہیں۔ اگرچہ ممکن ہے لیکن مکمل فوجی بغاوت کا امکان نہیں،گزشتہ دورکے طرز عمل سے فوج اقتدار لینے میں تذبذب دکھائے گی کیوں کہ وہ شمالی وزیر ستان میں طالبان کے ساتھ آپریشن میں مصروف ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ امکان ہے کہ فوجی بغاوت سے اربوں ڈالرکی واپسی ہو جائے گی جو اس وقت فوج کی امداد کیلئے ضروری ہے۔ اس کے باجود فوج کے پاس مصیبت میں گھرے وزیراعظم کو مزید کمزور کرنے کا موقع ہے۔1999میں مشرف کے ہاتھو ںمعزولی کے بعد نواز شریف فوجی اسٹیبلشمنٹ اورآئی ایس آئی کے بارے کافی مایوس ہو چکے ہیں۔بنیادی اختلافات کی وجہ سے دونوں کے درمیان کشیدگی ہے۔ فوج پراکسی کے ذریعے افغانستان پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے لیکن نواز شریف افغان معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہیں چاہتے۔بھارت کے معاملے پر فوج اور نواز شریف کے اختلافات ہیں۔ وزیر اعظم اور فوج کے درمیان ملک کے سب سے بڑے نجی ٹیلی ویژن اسٹیشن جیو کی قسمت پر پہلے سے محاذ آرائی جارہی ہے۔اس نے بھارت کے ساتھ مفاہمتی مہم کو چلانے کا دلیرانہ قدم اٹھایا ،اور سب سے بڑا تنازع مشرف ہے فوج مشرف کی رہائی چاہتی ہے تاکہ وہ لندن میں خودساختہ جلا وطنی گزار سکے۔گزشتہ سال کے انتخابات سے قبل نواز شریف فخر سے کہتے تھے کہ انہوں نے غیر جمہوری طریقے سے ایک کمزور حکومت کا تختہ الٹنے کی مزاحمت کی۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اب سازشوں کا دور ختم ہو گیا۔اگر آنے والے دنوں میں نواز شریف مشرف یا بھارت کے معاملے پر فوج کے مطالبات کو مان لیتے ہیں ، اس کے بعد بہت سے مبصرین یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ سازشیں اب بھی پاکستانی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتیں ہیں۔جریدہ لکھتا ہے کہ جب گزشتہ برس نواز شریف نے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو کئی نے یہ امیدلگا لی کہ پاکستان اب نئے جمہوری دور میں داخل ہوچکا ہے اب گلیوں میں کوئی افراتفری نہیں ہوگی جس سے جرنیلوں کو دخل اندازی کی ضرورت پڑتی تھی۔ یہ انتخابات تاریخ کے ایک سنگ میل تھے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری قوت کو اقتدار منتقل کیا۔حتی کہ نواز شریف نے اپنی حریف جماعت کو شکست دی جسے فخر تھا کہ اس نے پانچ سال دور حکومت مکمل کیا۔قابل افسوس کہ پاکستان کے جمہوری عمل میں بار بار مداخلت سے سیاسی منظر نامے پر ہر کوئی اپنا دور مکمل نہیں کرپایاج یہی وجہ ہے کہ ملکی ترقی رک گئی۔جریدہ لکھتا ہے کہ 1996میں اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز کرنے والے عمران خان کی جماعت 2013کے ا نتخابات میںملکی کی تیسری بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی،اور کے پی کے میں اپنی حکومت بنائی ۔ یہ متاثر کن سویپ عمران خان کے لئے کافی نہیں،عمران خان کے دھاندلی کے دعووں کے بعد 12اگست کو وزیرا عظم نواز شریف نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے تین رکنی عدالتی کمیشن قائم کرنے کی پیشکش کی جس کا عمران خان نے مطالبہ کیا تھا ،تاہم عمران خان نے ان کے استعفیٰ تک وزیر اعظم کی پیشکش کو مسترد کردیا ۔طاہر القادری عمران خان کے برعکس نئے انتخابات کے مخالف ہیں۔وہ گرین انقلاب کی بات کرتے ہیں۔حالیہ مہینوں میں قادری کے پیروکاروں نے تشدد اور محاذ آرائی کا مظاہرہ کیا۔وہ بھی اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔حکومت اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے اقدامات میں مصروف ہے۔اس صورت حال سے اسٹاک مارکیٹ لڑکھڑا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر دباؤ کا شکار ہے۔