05 ستمبر ، 2014
کراچی.... محمد رفیق مانگٹ...... برطانوی جریدہ’’ اکنامسٹ‘‘اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ پاک فوج،وزیر اعظم نواز شریف کی توانائی پالیسی کی حامی ہے۔پی ٹی وی پرحملہ حالیہ کشیدگی میں اضافے کےلئے کیا گیا کہ فوج مداخلت کرکے نواز شریف کو بے دخل کرے ۔ فوجی جرنیل نوا زشریف کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ فوجی بغاوت سے امریکی مالی امدا دخطرے میں پڑ جائے گی۔پاکستان میں ریٹائرڈ جرنیلوں کی بڑی تعداد ہے جو فوج کی بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سیاسی طاقتیں جو فوج کی مداخلت کی مخالفت کرتی ہیں وہ حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئیں۔ بلوائیوں کی طرف سے پولیس افسران پر بانس کے ڈنڈوں سے تشدد جب کہ فوجیوں کا احترام کیا گیا۔ جیو کے معاملے پر حکومت فوج کے ساتھ مشکلات کا شکار ہے۔جریدہ لکھتا ہے کہ پی ٹی وی پر یلغار کرنے والے طاہر القادری اور عمران خان کے حامی تھے۔عمرا خان نے نواز شریف کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی فتح کو لوٹ لیا گیا لیکن آزاد انتخابی مبصرین ان کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔قادری کے چاروں طرف فوج کی تعریف میں بینرز آویزاں ہیں۔یقینی طور پر نواز شریف کو کمزور کرنے یا انہیں تباہ کرنے کے جرنیلوں کے مقاصد ہیں ۔ یہ کوئی راز نہیںکہ نواز شریف فوج کو سویلین کنٹرول میں چاہتے ہیں۔وہ بھارت کے ساتھ دشمنی کے تعلقات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، فوج اس پالیسی کی مخالف ہے۔حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے مسئلے پر بھی فوج ناراض ہے، اور جیو کے معاملے پر بھی حکومت فوج کے ساتھ مشکلات کا شکار ہے۔اپریل میں فوج نے جیو کو بند کرنے کامطالبہ کیا ۔ جیو نے اپنی رپورٹنگ پر معزرت بھی کی۔ وزیر اعظم کے معاونین کہتے ہیں کہ فوج خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی کے پورٹ فولیو لینے کا ارادہ کرچکی اور نواز شریف اس پر اپنے اختیارات سونپ چکے۔جریدہ لکھتا ہے کہ یہ وزیر اعظم کی طاقت کی خلاف ورزی ہے۔لیکن یہ بالکل ایک بغاوت نہیں ہے۔ مظاہرین کی طرف سے فوج کی مداخلت کی کوششیں کام نہیں آئیں۔ یہ اشارے بھی سامنے آئے کہ جرنیل اس حقیقت کو تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ فوجی بغاوت خود فوج کے لئے اچھی نہیں ہوگی۔ مشرف کے جانے کے بعد فوج سیاست کا کنٹرول لینے سے گریز کرتی رہی۔یہ بھی فکر مندی ہے کہ فوجی بغاوت سے امریکی مالی امدا دخطرے میں پڑ جائے گی۔اسلام آباد کی گلیوں میں اس وقت بحران کی طوالت سے بہت کم دلچسپی ہے جب فوج وزیرستان میں طالبان کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔فوج نواز شریف کی کچھ پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے خاص کر توانائی کی امپورٹ میں۔ فوجی جرنیل نوا زشریف کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔حالیہ احتجاجوں کو اکسانے میں اگر فوج کا کوئی کردار بھی ہے تو اس کے بارے ابھی بے یقینی ہے۔ امریکی سیکورٹی تجزیہ کمپنی کے کامران بخاری کہتے ہیں پاکستان میں ریٹائرڈ جرنیلوں کی بڑی تعداد ہے جو فوج کی بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ جنرل راحیل شریف اور کور کمانڈروں کی حقیقی طاقت سے کوسوں دور ہیں،کوئی اسکرپٹ نہیں ہے۔اب بھی کچھ سیاستدان ہیں جو سیاست میں فوج کا کردار چاہتے ہیں۔ لیکن جو سیاسی طاقتیں فوج کی مداخلت کی مخالفت کرتی ہیں وہ حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئیں۔فوج پاکستان میں اب تک مضبوط ترین ادار ہ ہے لیکن سیاسی طاقتیں پندرہ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔جریدہ لکھتا ہے کہ حکومت، مظاہرین اور فوج کے درمیان ایک ناخوشگوار موقف نے پاکستان پر کنٹرول کوپہلے سے زیادہ مشکل بنا دیا ہے ۔فوجی بغاوتوں کے شکار پاکستان میں سرکاری ٹی وی پر کنٹرول ہمیشہ فوجی آمریتوں کے نکتہ آغاز کے طور پراستعمال ہوتا رہا۔اسلام آباد کے مرکز میں پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹر وہ پہلی عمارت تھی جب 1999میں جنرل مشرف نے نواز شریف کو معزول کرنے کےلئے قبضہ کیا۔یکم ستمبر کو فوج نے ماضی کی مثال دہرا دی ،تاہم اس بار فوج احتجاجیوں کو ہٹانے کے لئے ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئی جنہوں نے زبردستی نشریات کو بند کرادیا تھا۔ نواز شریف کی دوبارہ اقتدار میں واپسی سے امیدپیدا ہوئی تھی کہ فوج کی مداخلت ختم ہو جائے گی ،لیکن جرنیل اب بھی ان کے گرد ہیں۔ وسط اگست سے دونوں رہنماؤں نے حکومت کو بے دخل کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔دونوں کا ہجوم پاکستانی معیار کے لحاظ سے بہت معمولی رہا۔موسیقی اور تقاریر میں مظاہرین کی تعداد 50ہزار تک توپہنچی ، پھر موجود کشیدگی سے مظاہرین کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی۔28اگست کو فوج امپائر کے طور پر سامنے آئی۔ عمران اور قادری کو نصف شب آرمی چیف سے ملاقات کے لئے مدعو کیاگیا جنرل راحیل شریف کو ان کے اور حکومت کے درمیان ثالث کی پیش کش کی گئی۔30اگست کو مظاہرین ایوان وزیر اعظم پر چڑھ دوڑے اور پولیس سے جھڑپیں کیں۔ اگلے ہی دن فوج نے حکومت سے کہا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔جب فوجی اہلکاروں سے کہا گیا کہ وہ مظاہرین کو پی ٹی وی کے کیمرے توڑنے سے روکیں اور عمارت خالی کرائے۔ تو دو سو ڈنڈا بردار فسادیوں نے تیزی سے عمل کیا۔