19 ستمبر ، 2014
پشاور...... دہشت گردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی 60 لاکھ آبادی کے لئے ساڑھے چھ ہزار پولیس ہے جس میں صرف 18سو پولیس اہلکار عوام جبکہ باقی 4ہزار700اہلکار خواص کی حفاظت پر مامور ہیں۔ صوبہ کے حکمران یوں تو 14 اگست کے بعد سے اسلام آباد کے دھرنے میں موجود ہیں لیکن ان کی غیرموجودگی میں بھی پولیس کی آدھی نفری انہی کی حفاظت پرمامورہے۔ دنیا کے خطرناک قراردیے جانے والے شہروں کی فہرست بن رہی تھی توپشاوربھی ان میں سے ایک قراردیا گیا۔ شہر پشاور کی تقریبا 60 لاکھ کی آبادی کے لئے 13 ہزار کی نفری درکار ہے۔ لیکن دستیاب اس سے آدھی یعنی ساڑھے چھ ہزار ہے اور حیرانگی کا مقام ہے کہ ان ساڑھے چھ ہزار میں سے بھی صرف 18سو عام لوگوں کےلئے جبکہ باقی خواص کی حفاظت پر مامور ہے۔ جرائم پیشہ افراد کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ ان کے مفادات ہوتے ہیں، وی آئی پیز تو ویسے بھی اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔ چودہ سالوں کے دوران پشاور کے حالات کیا سے کیا ہوگئے۔ غیرسرکاری سرویزکے مطابق یہ آبادی 60لاکھ ہوچکی ہے اور اس کی حفاظت کےلئے نفری دستایب نہیں۔ پولیس رولز کے مطابق ساڑھے چارسو افراد کےلئے ایک پولیس والا ہونا چاہیے، نفری کی کمی دور کرنے کےلئے اے این پی دور میں بھرتیاں ہوئیں لیکن اہلکار بھرتی ہوئے اس وقت کے حکمرانوں کےلئے یعنی ضلع چارسدہ اور مردان میں۔ شہرکے سب سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں قائم سی ایم ہائوس اور گورنر ہائوس کی حفاظت کےلئے صرف پولیس کے پانچ سو اہلکار تعینات ہیں، اسی طرح جیل اور ہائیکورٹ کے تحفظ پر بھی پولیس کے وہ اہلکارتعینات ہیں جنہیں عوام کی حفاظت پرمامورہونا چاہئے تھا۔