دنیا
07 نومبر ، 2014

امریکی صدر کا ایران کے سپریم لیڈر آیت الله خامنہ ای کو خفیہ خط

امریکی صدر کا ایران کے سپریم لیڈر آیت الله خامنہ ای کو خفیہ خط

نیویارک......ایک امریکی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط تحریرکیا ہے جس میں ایران سے داعش کے خلاف مہم میں تعاون حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ لکھے گئے اس خفیہ خط میں امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں مشترکہ مفاد کے بارے میں بات کی ہے۔اخبار کے مطابق صدراوباما کےاس خط کا مقصد داعش کے خلاف مہم میں حمایت حاصل کرنا اور جوہری معاہدے کے لیے ایرانی رہنما کو قریب لانا ہے جبکہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں عالمی طاقتوں کے ساتھ متوقع جامع معاہدے کو داعش کے خلاف مدد سے مشروط قرار دیا ہے۔ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی سفارتی ڈیڈ لائن 24 نومبر ہے۔اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اتوار کو ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے اومان میں ملاقات کریں گے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خط کے بارے میں سفارتی حساسیت کے پیش نظر وائٹ ہاوٴس نے اسرائیل،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطی ٰکے اتحادیوں کو بھی آگاہ نہیں کیا۔ ان ممالک نےایران سے جوہری معاہدے کے لیے شرائط میں نرمی پرتحفظات کا اظہارکیا ہے۔دوسری جانب وائٹ ہاوس کے ترجما ن جوش ارنسٹ نے صدر اوباما اور عالمی سر براہان کے درمیان خفیہ نجی خط و کتابت کی تردید کی ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں ایران اور امریکا کے اعلیٰ حکام کے درمیان داعش کے خلاف مہم کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے۔امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں ریپبلکنز کو اکثریت حاصل ہونے کے بعد اوباما کو ایران سے جوہری معاہدے کی کوششوں میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔بدھ کوصدر اوباما نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایران میں امریکا مخالف جذبات رکھنے والے کچھ سیاسی اشرافیہ ہیں۔ کیا وہ تعاون پر آمادہ ہو سکتے ہیں یہ ایک سوال ہے۔2009 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اوباما نے ایران کے سپریم لیڈر کو یہ چوتھاخط تحریر کیا ہے۔ امریکی صدر نے تہران سے تعلقات بحال کرنے کے لیے 2009 میں آیت اللہ علی خامنہ ای کو دو خط بھیجے۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق ایرانی رہنما نے کبھی براہ راست ان کوششوں کا جواب نہیں دیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا کے ساتھ تعلقات پر شک وشبہات کا اظہار کیا ہے اور داعش کے خلاف امریکی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے مغرب کی جانب سے اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکام کا بھی یہی خیال ہے کہ اوباما ایرانی سپریم لیڈر سے روابط پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ جوہری معاہدے اور داعش کے خلاف مہم پر حتمی فیصلہ آیت اللہ علی خامنہ ای کا ہی ہوگا۔

مزید خبریں :