17 نومبر ، 2014
اسلام آباد ..........الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نظام بھی فول پروف نہیں ، اس میں بھی دھاندلی ہو سکتی ہے اور یہ ہیک بھی کیا جا سکتا ہے۔انتخابی اصلاحات کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر زاہد حامد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا عملی مظاہرہ کیا گیا جب کہ الیکشن کمیشن حکام نےبتایا کہ اس نظام کی شفافیت کا انحصار نظام کے پیچھے بیٹھے شخص پر ہو گا۔ انہوں نے بھارت کی مثال پیش کی جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے نظام میں بنیادی خامیاں سامنے آئی ہیں۔ الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ عوام یہ امید نہ لگائیں کہ اس نظام کے بعد الیکشن کی شفافیت 100فیصد یقینی ہو جائے گی۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر زاہد حامد نے بتایا کہ الیکشن کمیشن حکام نے بریفنگ دی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نظام بھی فول پروف نہیں ہے، اس میں بھی دھاندلی ہو سکتی ہے اور یہ ہیک بھی کیا جا سکتا ہے۔ کمیٹی نے ٹھوس سفارشات مانگیں تو الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بعد ہی یہ سفارشات پیش کی جا سکیں گی۔ زاہد حامد نے بتایا کہ ایک الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 60سے 70ہزار روپے لاگت آئے گی اور ملک بھر میں 2لاکھ 75ہزار مشینیں درکار ہوں گی جن کی فراہمی میں ایک سال لگے گا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس نظام کا پہلے پائلٹ پراجیکٹ تیار کرے گا تاکہ خامیوں کو دور کیا جا سکے،نہیں چاہتے کہ کروڑوں روپے لگا کر بھی الیکشن کی شفافیت پر الزام آئے۔انہوں نے بتایا کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترامیم کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔کمیٹی کی رکن اور وزیر مملکت انوشہ رحمان نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نظام کے استعمال کا فیصلہ کمیٹی نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔