20 نومبر ، 2014
اسلام آباد........خصوصی عدالت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ختم کرنے یا شریک ملزمان کو شامل کرکے ازسرنو مقدمہ داخل کرنے سے متعلق ملزم کی درخواست پر فیصلہ کل سنائے گی۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی خان پر مشتمل خصوصی عدالت ملزم پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ کی 78سماعتیں کر چکی ہے۔ 31 اکتوبر کو پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ان کی اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا،کہ اکیلے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ امتیازی سلوک ہے، اسے ختم کیا جائے یا ان کے 600 سول و فوجی مدد گاروں اور معاونین کو بھی شریک ملزمان کے طور پر شامل کرکے ازسر نو مقدمہ دائر کرنے کے احکامات دیے جائیں۔ استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ کا موقف تھا کہ عدالت یہ درخواست مسترد کردے، پرویز مشرف کی یہ درخواست تضادات کا مجموعہ ہے قانون میں کسی ملزم کا یہ بنیادی حق نہیں ہے کہ دیگر ملزمان کا مقدمہ بھی اسی کے ساتھ چلایا جائے۔ وکلاء کی بحث مکمل ہونے پر31 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007کےغیر آئینی اقدامات پر 6 سال بعد ایف آئی اے کی تحقیقات مکمل ہونے پر نومبر 2013میں پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت کو بھجوایا تھا۔ جس کی باقاعدہ سماعت دسمبر 2013میں شروع ہوئی۔ پرویز مشرف سخت حفاظتی انتظامات میں دو مرتبہ خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔ 31مارچ 2014کو پرویز مشرف پر آئین شکنی کے 5جرائم کی فرد جرم عائد کی گئی، پرویزمشرف نے ان پانچوں جرائم کا اعتراف کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس کے بعد استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت میں دستاویزی شہادتیں جمع کرائیں اور آٹھ گواہ پیش کیے جنہوں نے اپنے بیانات عدالت میں قلم بند کرائے۔ دستاویزی شہادتوں اور گواہوں کے بیانات پر پرویزمشرف کے وکلاء نے جرح بھی مکمل کی۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ ختم ہو گا یا نہیں، یا سنگین غداری کے اس شکنجے میں مزید لوگ بھی جکڑے جائیں گے۔ ملکی تاریخ کے اس پہلے مقدمے کے قانونی نکات پر خصوصی عدالت جمعہ کو اپنا فیصلہ سنائے گی۔