دنیا
30 نومبر ، 2014

ڈیلس : ’’جنوبی ایشیا میں امن کی آشا اور تنازعات کی قیمت‘‘پر سیمینار

ڈیلس : ’’جنوبی ایشیا میں امن کی آشا اور تنازعات کی قیمت‘‘پر سیمینار

ڈیلس .....راجہ زاہد اختر خانزادہ......امریکا کی یونیورسٹی آف ٹیکساس ڈیلس سائوتھ ایشیا سینٹر اور امریکا میں انسانی حقوق جمہوریت کی علمبردار غیر سرکاری تنظیم سائوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے اشتراک سے یونیورسٹی آڈیٹوریم میں ایک سیمینار بعنوان ’’جنوبی ایشیا میں امن کی آشا اور تنازعات کی قیمت‘‘ منعقد ہوا جس میں سائوتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سیمینار کی مہمان خصوصی جنگ و جیو گروپ امن کی آشا کی ایڈیٹر بینا سرور تھیں جنہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ جنگ/ جیو گروپ اور بھارت کے ٹائمز آف انڈیا کے ذریعے امن کی آشا کا پروگرام اس لئے شروع کیا گیا تاکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطہ کرا کے ان کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرایا جا سکے جس کے خاطر خواہ اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں عوام کا عوام سے براہ راست رابطہ کرایا گیا جہاں فنکاروں‘ شاعروں‘ صحافیوں‘ ادیبوں نے حصہ لیا وہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی جن میں زراعت‘ تعلیم‘ آئی ٹی ماہرین‘ توانائی‘ صحت سمیت دیگر شعبوں میں موجود ماہرین کا دونوں ممالک میں تبادلہ کے ذریعے رابطہ کرایا گیا۔ اس طرح انڈیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود ماہرین نے ایسے وفود کا خیرمقدم بھی کیا۔ انہوں نے کہاکہ رائے عامہ کو ہموار کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مسائل پر بات چیت میں آسانی پیدا ہوئی اور سیاسی رہنمائوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہوا کہ وہ بات چیت کے ذریعے ایک میز پر اکٹھے ہوں انہوں نے کہاکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس پر کام جاری ہے۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف اوکلوہاما میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ اور کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ شیخ عبداللہ کی پوتی ڈاکٹر نائیلہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مضبوط اور خوشحال بھارت اور پاکستان پورے خطے کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت میں جو تعطل قائم ہے اس کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے عملی حل تلاش کرتے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل میں ایسے اضافہ ہوا ہے کہ آرمی نے قومی سلامتی کے کام کو چھوڑ کر اپنی توجہ ’’نظریہ‘‘ پر مرکوز کر رکھی ہے جبکہ اس ضمن میں سیاسی و مذہبی قائدین اور نوجوان بھی ناکام ہوئے ہیں لہٰذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ قوم کی تعمیر کے سلسلے میں سنجیدگی سے سوچا جائے۔ ہیوسٹن سے آئے ہوئے دانشور سنیل شرما نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک میں امن کے قیام میں دونوں ممالک سنجیدہ نہیں ہیں انہوں نے کہاکہ جب دیوار برلن گر سکتی ہے تو ہم بھی ایک جیسی ثقافت‘ کھانا پینا سب ایک جیسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہیں مل سکتے۔ سائوتھ ایشیا ڈیموکریسی کے ڈاکٹر پرتپال سنگھ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں سکھ کمیونٹی کے 18 سے 26 سال کے درمیان کے 70 فیصد لڑکے اور لڑکیاں منشیات کی عادت کا شکار ہیں انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی مغربی ممالک آپس میں 600 بلین سے لے کر 200 بلین ڈالرز سالانہ کا کاروبار کرتے ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف 3 بلین ڈالرز سالانہ کا کاروبار ہوتا ہے جس کو بڑھا کر فوری طور پر 10 بلین ڈالرز تک کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ امن کی کاوشوں میں دیر لگتی ہے مگر یہ کوئی ناممکن کام نہیں انہوں نے کہاکہ اس کیلئے مجھے اور آپ کو تبدیلی کا ذریعہ بننا ہو گا اس طرح ہم دونوں جانب سے انتہا پسندوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ سیمینار سے قبل یونیورسٹی آف ڈیلس شعبہ سائوتھ ایشیا سینٹر کی ڈائریکٹر مونیک اور سائوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے صدر امیر مکھانی نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے جنرل سیکرٹری سید فیاض حسن‘ آفتاب صدیقی‘ راجہ زاہد اختر خانزادہ‘ توصیف کمال‘ راجہ مظفر کشمیری‘ آصف آفندی‘ مونا کاظم شاہ‘ اکبر بیرانی اور دیگر کا تعارف بھی کرایا گیا۔ سیمینار میں طالب علموں اور جنوبی ایشیا خصوصاً انڈیا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین شریک ہوئے۔ اس موقع پر سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوا۔

مزید خبریں :