بلاگ
18 اپریل ، 2017

تعلیمی اداروں میں بیرونی مداخلت بڑھ گئی

تعلیمی اداروں میں بیرونی مداخلت بڑھ گئی

ٹوٹی کرسیاں ،ڈنڈے اور لاٹھیاں،پولیس کی چیک پوسٹس،مشتعل افراد اور عجیب سی گہما گہمی ۔۔۔یہ حالات سننے میں توکسی سیاسی جلسے یا دھرنےکے معلوم ہوتے ہیں مگر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ مناظر پاکستان کے موجود ہ تعلیمی اداروں کے ہیں۔

گزشتہ کچھ عر صے کے دوران پاکستان میں موجود تعلیمی ادارے بہت سنجیدہ مسائل کا شکار ہیں جن پر ہماری توجہ بےحد ضروری ہے۔ اسکولوں میں خودکشی کےواقعات ہوں یا یونیورسٹیز میں طلبہ و طالبات کو تشددکا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ ۔۔۔اس طرز کے کئی واقعات کچھ عرصے سے ہمارے تعلیمی اداروں میں بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں رونما ہونے والےیہ واقعات اندرونی اور بیرونی دونوں جانب کے حالات سے متاثر ہیں۔

ان واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات صاف ظاہر ہے کہ ان میں بیرونی مداخلت کا تناسب اندرونی مداخلت سے کم ہے۔

نصاب میں شامل اتنی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے کے باوجود بھی اگر بچہ صحیح اور غلط کا فیصلہ نہ کرسکے، اسے دوسرے کا مؤقف سننے کی ہمت نہ ہو،وہ ہمیشہ اسی کوشش میں رہے کہ دوسرے کو غلط اور خود کو صحیح ثابت کر دے اور اس کے اندر قوتِ برداشت نہ ہو تو ایسی تعلیم کا کیا کیا جائے۔۔۔۔؟

مطلب یہ کہ یہ معاملات کتابوں اور کاپیوں سے باہر کے ہیں۔

جاپانی نظامِ تعلیم دنیا کے بہترین نظامِ تعلیم میں سےایک ہے جس کا ماننا ہے کہ نصابی تعلیم سے زیادہ توجہ بچے کی تر بیت پر دینی چاہئے جو اس کی شخصیت کا محور ہوتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے اخلاق اور سول سنس سے ناآشنا دکھائی دیتے ہیں کیونکہ تعلیمی ادارے اور ماں باپ انھیں بھاری بستےسے لیکر بڑی ڈگرییوں کے حصول تک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اس نظریہ کو لیکر پروان چڑھنے والی نسل پیسے کمانے کے قابل تو ہو جاتی ہے لیکن معاشرے کی بہتری میں اپنا کو ئی کردار ادا نہیں کر پاتی۔

یہ بات کافی توجہ طلب اور غوروفکر کرنے والی ہے کہ ہم سے ایسی کونسی کوتاہی کر رہے ہیں جس کے بعد یہ نتائج سامنے آرہے ہیں کہ درس گاہیں بھی تشدد سے محفوظ نہیں۔

اس عمل کو بہتر کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں کاؤنسلنگ اور مختلف باہمی سرگرمیوں کا انعقاد بے حد ضروری ہے جس سےبچوں کی اخلاق اور معاشرتی دونوں طرز کی تربیت ہوسکے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ گھر کے ماحول پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہےتا کہ بچوں کے جذبات مجروح نہ ہوںاور انکا  خیال کیا جائے۔

سوشل میڈیا سمیت ہر قسم کے میڈیا کو بھی چا ہیے کہ اس عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرے تا کہ آنے والی نسل اخلاقی اور معاشی دونوں لحاظ سے بہتر ہو۔