پاکستان
10 جولائی ، 2017

13سوالات کے جوابات: جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو نہیں ان کے بیٹوں کو قصوروار پایا، ذرائع

13سوالات کے جوابات: جے آئی  ٹی نے وزیراعظم کو نہیں ان کے بیٹوں کو قصوروار پایا، ذرائع

دی نیوز کے صحافی احمد نورانی کی رپورٹ کے مطابق پاناما پیپرز پربنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سپریم کورٹ پاناما بینچ کی جانب سے اٹھائے گئے 13سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کو کسی بھی غلط کام کا ذمہ دار قرارنہیں دیا ہے۔

یہ بات جے آئی ٹی کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوئی ہے کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم پر کسی موزوں شہادت کے بغیر کچھ شبہات کا اظہار کیا ہے لیکن وزیراعظم کو کسی بھی جگہ کسی بھی غیر قانونی کام کا ذمہ دار قرار نہیں دیا ہے۔

جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں اپنی فائنڈنگ دیتے ہوئے پانچویں سوال کے متعلق کہا ہے کہ شریف خاندان اس بات کے کافی شواہد فراہم نہیں کرسکا کہ رقم دبئی سے قطر، قطر سے جدہ اور جدہ سے لندن کس طرح پہنچی جیسا کہ انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے دعویٰ کیا تھا۔

تاہم جے آئی ٹی نے اس مسئلے کو حسین نواز اورحسن نواز(یہ دونوں پاکستان سے باہر رہتے ہیں) سے جوڑا ہے  اور اسی دوران جے آئی ٹی کوئی ایسی شہادت تلاش نہیں کرسکی جس سے پتا چلے کہ دونوں نے غیر قانونی طریقے سے رقم کمائی ہے۔

جے آئی ٹی نے 1990 کی دہائی میں شریف خاندان کے دیگر ارکان کی جانب سے لین دین کے کچھ معاملات کے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ میں سوال نمبر 9 کے حوالے سے تسلیم کرے گی کہ وہ آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی ملکیت کے حوالے سے سرکاری شواہد تلاش نہیں کرسکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی ان دونوں آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے، جو لندن کے پارک لین کے 4 فلیٹوں کی مالک ہے، شریف خاندان کے اختیار کیے گئے مؤقف کو مسترد کرنے کے لیے کوئی شہادت حاصل نہیں کرسکی۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جے آئی ٹی 4 سوالات، سوال نمبر5 ، 7، 8 اور 9 کے جوابات تلاش نہیں کرسکی۔ شریف خاندان ان سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے۔ جے آئی ٹی جوابات سے متعلق نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان جوابات کو غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی شہادت بھی حاصل نہیں کرسکی۔

آخری 4 سوالات، سوال نمبر10،11،12 اور 13 کے حوالے سے جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی جانب سے دی گئی شہادتوں اور جوابات پر زیادہ انحصار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی ان آخری 4 سوالوں کے حوالے سے شریف خاندان کے خلاف کوئی سخت مخالفانہ اورقابل قبول بات نہیں کر سکی ہے۔

ذرائع کے مطابق پہلے 4 اور چھٹے سوال کے حوالے سے جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے فراہم کردہ دستاویزی ثبوت پر انحصار کیا ہے اور و ہ اپنے سامنے شریف خاندان کی جانب سے دیئے گئے بیانات اور فاضل عدالت کے سامنے بیانات کے خلاف کوئی قابل ذکر چیز پیش نہیں کرسکی۔

میڈیا میں اس قسم کی اطلاعات تھیں کہ جے آئی ٹی ارکان نے دبئی سے شریف خاندان کے 1970 میں متحدہ عرب امارات میں کاروباری معاملات سے متعلق مؤقف کے خلاف قابل ذکر شہادت حاصل کرلی ہے لیکن نہ تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں سے اس حوالے سے کوئی سوال کیا گیا ہے اور نہ ہی جے آئی ٹی کے قریبی ذرائع نے ایسی کسی چیز کی تصدیق کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ نکات پر جے آئی ٹی اپنے مینڈیٹ سے بھی آگے چلی گئی اور اس نے سخت ریمارکس بھی دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کی چیزیں مقدمے کی کارروائی میں غیر متعلق ہوں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں واحد سنجیدگی چیز یہ فائنڈنگ ہوگی کہ شریف خاندان دستاویزی شہادتوں کے ذریعے منی ٹریل ثابت نہیں کرسکا۔ جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی جانب سے پیش کردہ منی ٹریل پر سخت ریمارکس دیئے ہیں اور کچھ  شکوک کا اظہار کیا ہے لیکن کچھ بے ضابطگیوں کا ذکر کرنے کے علاوہ اپنے شکوک کو شہادتوں سے ثابت نہیں کیا۔

 یہاں یہ اہم بات نوٹ کرنے کی ہے کہ منی ٹریل کا مسئلہ وزیراعظم سے نہیں بلکہ شریف خاندان کے ارکان سے متعلق ہے۔ شریف خاندان نے ثابت کیا ہے کہ اس کے سربراہ میاں محمد شریف 1980کی دہائی میں وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے سیاست میں حصہ لینے سے بھی قبل بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک چلا رہے تھے اور یہ کہ میاں محمد شریف کے اثاثے براہ راست ان کے پوتوں کو منتقل کیے گئے تھے جو کہ بہت سے معاملات میں معمول کا عمل ہےجب کہ وراثت میں ملنے والی دولت مختلف کاروبار میں ابتدائی سرمایہ کاری کے لیے پوتوں کے لئے ایک ذریعہ بن گئی۔

ذرائع کے مطابق ذیل میں فاضل عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے 13سوالات اور جے آئی ٹی کی فائنڈنگ دی جارہی ہے اور اس کے ساتھ فاضل عدالت اورجے آئی ٹی کے سامنے شریف خاندان کی جانب سے ہر سوال کا مختصر جواب بھی شامل ہے۔

(1)۔ گلف اسٹیل مل کس طرح وجود میں آیا؟ ذرائع کے مطابق اگرچہ جے آئی ٹی اس سوال پر شریف خاندان کے جواب سے مطمئن نہیں ہے لیکن وہ ایسی کوئی چیز تلاش نہیں کرسکے جو شریف خاندان کے بیان کے برعکس ہو۔

شریف خاندان کا مؤقف: جنوری1972 میں قومیائے جانے کے عمل کے بعد 1974 میں متحدہ عرب امارات میں زیادہ تر بینکوں سے رقم کا انتظام کرکے کاروبار شروع کیا گیا اور اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ گلف اسٹیل کے لیے پاکستان سے رقم باہر لے جائی گئی یہ گلف میں پہلی اسٹیل مل تھی۔ میاں محمد شریف سقوط ڈھاکہ میں ایک فیکٹری سے محروم ہونے اور تمام فیکٹریوں کی ماں اتفاق فاؤنڈری کے نیشنلائز ہونے کے بعد دبئی گئے تھے، گلف اسٹیل کو بہت کم رقم اور زیادہ تر فنانسنگ کے ذریعے بنایا گیا۔

(2)۔ اس کی فروخت کی وجہ کیا بنی؟ جے آئی ٹی نے کسی فائنڈنگ کے بغیر شریف خاندان کے جواب پر انحصار کیا ہے۔

شریف خاندان کامؤقف: فیکٹری ترقی کر رہی تھی اورآپریشنل تھی لیکن اس وقت شرح سود بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مالی مسائل تھے لہٰذا فیصلہ کیاگیا ہے کہ کمپنی کے ایک حصے کو فروخت کرکے قرضہ ادا کر دیا جائے۔ مل میاں محمد شریف کے 20سالہ بھتیجے طارق شفیع کے نام تھی۔

(3)۔ مل کی مالی ذمہ داریوں کا کیا ہوا؟ جے آئی ٹی نے ایک سوال پر کچھ اضافی حقائق پیش کیے گئے ہیں لیکن کوئی غلط کام ثابت نہیں کرسکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: ایک نئی کمپنی جس کا نام اہلی اسٹیل تھا بنائی گئی تاکہ وہ گلف اسٹیل کے فکسڈ اثاثوں کو سنبھال سکے اس میں 75 فیصد اہلی خاندان اور 25 فیصد شریف خاندان کے تھے۔ فروخت سے پہلے معاہدے کے تحت فروخت سے حاصل ہونے والے 22ملین درہم براہ راست بی سی سی آئی کو چلے گئے۔ پلانٹ سے کرنٹ اثاثے (واجب الوصول، اسکریپ کا اسٹاک ،تیار شدہ اسٹیل ) اہلی کوفروخت نہیں کیے گئے تھے ان سب کو باقی ماندہ قرض ادا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

(4)۔اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کہاں گئی؟ جے آئی ٹی شریف خاندان کے بیانات کے علاوہ کوئی اضافی حقائق پیش نہیں کرسکی تاہم جے آئی ٹی کے کچھ ارکان نے شریف خاندان کی جانب سے اس معاملے میں بیانات پر شک کااظہار کیا ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ آیا یہ شکوک حتمی رپورٹ میں کسی جوابی شہادت کی غیر موجودگی میں شامل ہوں گے یا نہیں۔

 شریف خاندان کا مؤقف: 1980 میں میاں محمد شریف اتفاق فاؤنڈری کی ڈی نیشنلائزیشن  کے بعد اس سرمایہ کاری کو جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے جس کے بعد 25 فیصد حتمی حصص 1980 میں 12 ملین درہم کی زیادہ قیمت پر فروخت کر دیئے گئے جب کہ ابتدائی 75 فیصد حصص 22ملین درہم میں فروخت کیے گئے۔ یہ رقم نقدی کی صورت میں وصول کی گئی جو 6 ماہ میں ہر ماہ 2ملین درہم کی صورت میں ملی۔ دبئی کی عدالت کی جانب سے تصدیق شدہ فروخت کا معاہدہ جے آئی ٹی کے پاس جمع کرایا گیا فروخت سے حاصل ہونے والی یہ رقم میاں محمد شریف کے قابل بھروسہ دوست جاسم بن جبار الثانی کو سرمایہ کاری کے لیے دی گئی یہ رقم جاسم کے بیٹے فہد بن جاسم اور حمد بن جاسم نے جو قطر کے موجودہ شہزادے ہیں نے وصول کی تھی۔

(5)۔ وہ کس طرح جدہ اور برطانیہ پہنچے؟ جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کی روشنی میں منی ٹریل ثابت نہیں ہوسکی بنیادی شہادت قطری شہزادے حمد بن جاسم کا بیان تھا اس تصدیق نہیں ہوسکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: رقم کی ادائیگی کے وقت شیخ جاسم بن جبار انتقال کرچکے تھے۔ رقم 2001 میں بینک کے ذریعے لندن اور جدہ بھیجی گئی تاہم بینکس پانچ چھ سال سے زیادہ ایسا ریکارڈ نہیں رکھتے اور 17 سال گزرنے کے بعد اب یہ ریکارڈ دستیاب نہیں۔ منی ٹریل کی ضرورت اس وقت ہوتی جب اثاثوں سے وزیراعظم کاتعلق ثابت کیا جاسکتا۔ دونوں بیٹے پاکستان سے باہررہتے ہیں اورانہوں نے کئی دہائیوں سے بمشکل ہی اپنے ریٹرنز فائل کئے ہیں لہٰذا ان کے ذرائع کے متعلق کچھ دستیاب نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اگر شریف خاندان کے فراہم کردہ تمام شواہد مسترد کردیئے جائیں تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بدعنوانی، عہدے کے غلط استعمال، منی لانڈرنگ یا مس کنڈکٹ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ میاں محمد شریف جو قابل ذکر وسائل کے مالک تھے اور جو کبھی کسی عوامی عہدے پرفائز نہیں رہے اپنی پوری زندگی خاندان کے لئے فنانس فراہم کرتے رہے لہٰذا اس کے لئے حقیقی طورپر بہت کھینچا تانی کرنی پڑے گی یہاں تک کہ فرض کرنا پڑے گا کہ وزیراعظم کا زیر بحث اثاثوں سے کوئی تعلق ہے۔

(6)۔ کیا مدعا علیہان نمبر7۔ (حسین نواز شریف)اور 8 (حسن نوازشریف)1990ء کی دہائی میں اپنی کم عمری کے پیش نظر ایسے وسائل کے مالک تھے کہ وہ فلیٹ خرید سکیں۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی شریف خاندان کے جواب کے متمن نہیں تھیں لیکن شریف خاندان کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی واحد شہادت بھی تلاش نہیں کرسکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ1990ء سے حسن اور حسین مذکورہ فلیٹوں کے مالک تھے تاہم اگر یہ فرض کربھی لیا جائے کہ شریف خاندان ان فلیٹوں کا مالک تھا تو اس کے لیے 1993-96ء میں جو رقم ادا کی گئی وہ 1.9ملین پونڈ تھی جو پاکستانی روپے میں ساڑھے 7 کروڑ روپے بنتے ہیں اور یہ میاں محمد شریف جیسے شخص کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ میاں محمد شریف کا اس لین دین سے کوئی تعلق جوڑنے کے لیے کوئی شہادت نہیں ہے۔

(7)۔ حمد بن جاسم کے خط کا اچانک سامنے آنا حقیقت ہے یا فسانہ؟ جے آئی ٹی اس نقطے پر اپنی تحقیقات مکمل نہیں کرسکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: میاں محمد شریف نے حمد بن جاسم کے والد کے ساتھ سرمایہ کاری کی تھی اس تمام عرصے میں دونوں خاندانوں کے قریبی تعلقات تھے، حمد بن جاسم نے فاضل عدالت اور جے آئی ٹی کو تمام تفصیلات فراہم کردیں ہیں۔ یہ بات ثابت شدہ کہ حمد بن جاسم وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے 1999ء میں فوجی بغاوت کے بعد جیل میں میاں نوازشریف سے ملاقات کی تھی اس کا مطلب کہ ان کے درمیان مضبوط تعلقات موجود تھے۔ رحمن ملک اپنی رپورٹ میں ایک نامعلوم عرب شیخ کی موجودگی کی بھی نشاندہی کی تھی۔ شریف خاندان نے اس کے متعلق اخفا قائم کررکھا لیکن اب یہ کسی طرح بھی کوئی افسانہ نہیں ہے۔

(8)۔ بیئرر شیئرز کس طرح فلیٹوں میں تبدیل ہوئے؟ جے آئی ٹی کی اس سوال پر فائنڈنگ قیاس آرائی ہے اور شریف خاندان کی جانب سے بیان کردہ موقف کے برخلاف کوئی شہادت نہیں مل سکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: بی وی آئی اور اس جیسی دریغ کا دائرہ کار قانون اور ضابطوں پر ہوتا ہے جب کہ سرمایہ کار کا نام خفیہ رکھا جاسکتا ہے۔ عرب دنیا میں اور باقی ماندہ دنیا میں لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ دیگر لوگ ان کے بارے میں اس حد تک معلومات رکھیں۔ یہ ایک عام طریقہ کار ہے کہ کمپنیوں کو بیئرر شیئرز کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے۔ حمد بن جاسم کے بیان کے مطابق یہ کمپنیوں شروع سے ہی فلیٹ کی مالک تھیں اور یہ الثانی خاندان کے قبضے میں بیئرر شیئرز کے ذریعے تھیں جو دوحہ میں ان کے اس وقت تک پاس تھے جب تک کہ 2006ء میں حسین نواز کو دے نہیں دیے گئے۔ 2006 ء سے قبل ایک کمپنی جس کا نام Ansbacherتھا۔ ان کمپنیوں کیلئے خدمات فراہم کرتی تھیں۔ یہ کمپنی قطریوں کی ملکیت تھیں۔

(9)۔ نیسلن اور نیسکول کمپنیوں کے حقیقی مالکان کون تھے؟ جے آئی ٹی نے باہمی قانونی معاونت کے لیے درخواست کی لیکن اس معاملے میں کوئی سرکاری معلومات نہیں ہیں۔ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ نیب کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق جو جے آئی ٹی کو دیا گیا، برٹش ورجن آئی لینڈپہلے ہی پاکستان کو 2 مرتبہ جواب دے چکی ہے۔ جو آف شور کمپنیوں کے ریکارڈ اور معلومات کے حوالے سے درکار تھا کہ یا تو ریکارڈ دستیاب نہیں یا فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

شریف خاندان کا مؤقف: شریف خاندان کی گواہی کو مسترد کرنے کے لیے کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے۔ وزیراعظم کو اس سرمایہ کاری کو جوڑنے کے لیے سازش ہورہی ہے جب کہ شریف خاندان کے موقف کو مسترد کردیا گیا ہے جو حقائق پر مبنی تھا۔

(10)۔ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کس طرح وجود میں آئی؟ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے ابتدائی طور پر کسی شہادت کی غیر موجودگی میں شریف خاندان کے بیان پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم یہ واضح نہیں کہ حتمی رپورٹ میں کیا فائنڈنگ ہوں گی۔

شریف خاندان کا جواب: ہل میٹل 2005ء میں العزیزیہ اسٹیل کو فروخت کرنے کے بعد قائم کی گئی تھی العزیزیہ کی فروخت سے 63 ملین سعودی ریال حاصل ہوئے تھے جب کہ 40 ملین سعودی ریال ہل میٹلز کی 25 فیصد ایکوٹی بن گئے جب کہ باقی ماندہ 75 فیصد 2 سعودی بینکوں اور سعودیہ عرب کی سرکاری سعودی انڈسٹریل ڈویلپمنٹ فنڈ سے حاصل کیے گئے اس بارے میں شہادت جے آئی ٹی کو دے دی گئی۔

(11)۔ حسن نوازشریف کی جانب سے فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ اور دیگر کمپنیاں قائم کرنے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی شریف کے خاندان کے دعویٰ کے برعکس کوئی چیز تلاش نہیں کرسکی۔

شریف خاندان کا جواب: درخواست گزار کے دعویٰ کے برعکس فلیگ شپ معمولی سرمائے سے شروع کی گئی تھی، فلیگ شپ کا بزنس ماڈل یہ ہے کہ وہ ایک خستہ حال جائیداد خریدتے اور اسے بہت اعلیٰ معیار کے بنادیتے ہیں (اس کام میں اوسطاً ڈھائی سال اور کبھی زیادہ بھی لگتے ہیں) اور پھر فروخت کرتے ہیں زیادہ طلب کی وجہ سے لندن میں خریداروں کو تلاش کرنا آسان ہے۔ عام طور پر اگر منصوبے کی لاگت اندازاً 2ملین پونڈ ہو تو0.5 ملین پونڈ ایکوٹی کے طور پر ادا کیے جاتے ہیں اور ڈیڑھ ملین بینک کا قرض ہوتا ہے اس طرح کی جائیداد کو ڈھائی کے بعد ڈھائی ملین پر فروخت کرنا بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ ایکوٹی 1.5ملین ہوتی ہے لہٰذا اسے دگنا کرنا آسان ہوتا ہے فلیگ شپ میں اس طرح کے درجنوں منصوبے بنائے اور فروخت کیے اس طرح کے کاروبار میں ورکنگ کیپٹل کی ضرورت نہیں ہوتی فلیگ شپ میں جو رقم استعمال ہوئی وہ مندرجہ ذیل ذرائع سے آئی

1۔ میاں محمد شریف سے بذریعہ قطری پرنس ، معمولی سی رقم آئی۔2۔ العزیزیہ اسٹیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم حسن شریف کو ان کے بڑے بھائی حسین شریف نے دی تھی۔ 3۔ 2007ء میں پارک لین اپارٹمنٹ حسین شریف کو ٹرانسفر کیے گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی حسن کو ان جائیداد کو رہن رکھنے کی اجازت دی تھی اور ان کے عوض ڈوئچے بینک سے قرض لینے کی اجازت دی تھی یہ رقم کاروبار میں استعمال ہوئی اور اس سے بہت فائدہ ہوا یہ قرضہ قسطوں میں ادا کیا اور 2015ء میں مکمل ہوگیا۔

(12)۔ اس طرح کی کمپنیوں کا ورکنگ کیپٹل کہاں سے آتا ہے؟ جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی فراہم کردہ معلومات پر انحصار کیا جے آئی ٹی مزید معلومات حاصل نہیں کرسکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: ہل میٹل کیلئے ورکنگ کیپٹل کی سہولت 2سعودی بینکوں سے لی گئی تھی جے آئی ٹی کی تفصیلات اس کے پاس موجود ہیں۔

(13)۔ مدعا علیہ نمبر7 (حسین نواز) نے مدعا علیہ نمبر 1(میاں محمد نوازشریف) کو کروڑوں روپے کی بھاری رقم کس طرح تحفے میں دی؟ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کے کچھ ارکان کو شریف خاندان کی جانب سے وضاحت پر شکوک تھے تاہم کوششوں کے باوجود شریف خاندان کے موقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے کوئی شہادت نہیں حاصل نہیں کی جاسکی۔

شریف خاندان کا مؤقف: جو رقم وزیراعظم کو حسین نواز سے ملی تھی وہ ہل میٹلز سے آئی تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ ہل میٹلز 40 ملین سعودی ریال کے سرمایہ سے قائم کی گئی تھی جو اس کی اصل قدر کا 25فیصد ہے 75فیصد تاجراتی بینکوں اور سعودی سرکاری ادارے سے قرض لیا گیا تھا اس کے علاوہ مل کے آپریشن سے حاصل ہونے والی رقم بھی سرمایہ میں شامل کردی گئی تھی جب کہ ورکنگ کیپٹل دیگر ذرائع سے دستیاب تھا شریف خاندان نے سعودی عرب میں اپنے آڈیٹرز کا خط بھی فراہم کردیا ہے جس سے ہر سال ہونے والی آمدنی ظاہر ہوتی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ کاروبار کے لیے کافی نقدی دستیاب تھی جس سے یہ رقم پاکستان بھیجی گئی اور اس کے باوجود بھی آنے والے برسوں میں اضافی نقدی مہیا تھی۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ زرمبادلہ پاکستان لایا گیا نہ کہ پاکستان سے باہر لے جایا گیا۔ یہ اکنامک ریفارم ایکٹ کے تحت ہے اور ذرائع سوال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی جانا  ضروری ہے کہ حسن 1994ء سے بیرون ملک مقیم ہے جبکہ حسین نواز نے 1992ء میں پاکستان چھوڑ دیا تھا وہ 1997ء میں پاکستان واپس لیکن 2000ء میں جلاوطن کردیے گئے اور اس کے بعد سے واپس نہیں آئے اگر حسن اور حسین کو ان کے اثاثوں کے ذرائع اور پاکستان کے بھیجی جانے والی رقم کے ذرائع کے بارے میں سوال کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو یہ اصول ان بہت سے پاکستانیوں کے لیے بھی لاگو ہوگا جو اسی پوزیشن حامل ہوں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ دونوں بیٹے 40 سال کی عمر سے زیادہ کے ہیں اور اپنے والد کے زیر کفالت نہیں ہیں پاکستان جو رقم منتقل کی گئی وہ سب سرکاری ذرائع سے بینکنگ چینل کے ذریعے آئی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کے ریٹرنز میں ظاہر کی گئی ہے کھینچ تان کرکسی طرح یہ ظاہر کی جارہی ہے کہ حسن اور حسین اپنے والد کے بے نامی دار ہیں یہ خاندان دہائیوں سے کاروبار میں ہے اور اپنے شعبے میں لیڈر ہے۔

بے نامی داری ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وزیراعظم کو خاندان کے دائرہ سے باہر رکھ کر بھی بہت زیادہ وسائل موجود ہیں جن کی وضاحت کی جاچکی ہے اس طرح کی کوئی سازش نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی طرح کوئی شہادت نہیں موجود نہیں جس سے وزیراعظم کا مذکورہ اثاثوں کی خریداری سے تعلق ثابت ہوسکے۔

حقیقت میں وہ وکیل جنہوں نے 1993-96ء میں یہ جائیدادیں خریدیں تھیں سپریم کورٹ کے سامنے ایک خط میں تصدیق کرچکے ہیں کہ انہوں نے شریف خاندان کی جانب سے یہ کام نہیں کیا اور نہ ہی کبھی شریف خاندان کے کسی رکن کی ہدایت انہیں ملی۔ بے نامی سے مطابق الزام لگانے والوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ کس نے قیمت ادا کی، قبضہ، تحویل اور بے نامی کا محرک کیا تھا۔ مذکورہ بالا میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو اثاثوں سے وزیراعظم کا تعلق جوڑتی ہو۔

20 اپریل کے عدالت کے حکم کے پیرا نمبر3 کا آخری جملہ یہ تھا کہ ’’بینچ آئین کی دفعات 184 (3) ،187 (2) اور 190بشمول مدعا علیہ نمبر 1 اور کسی دوسرے شخص کے خلاف جس کا جرم سے تعلق ہو ریفرنس فائل کرنے کیلئے بشرطیکہ بینچ کے سامنے آنے والے ریکارڈ کی بنیاد پر جواز ہوا تو مناسب حکم جاری کرسکتی ہے۔‘‘  

پاناما عملدرآمد بینچ میں شامل تین ججز نے وزیراعظم یا ان کے خاندان کے کسی رکن کے خلاف پیش کیے گئے دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر کوئی سخت حکم جاری نہیں کیا ۔

عدالت کے حکم کی ان سطور سے واضح ہے کہ بینچ شریف خاندان کے خلاف جے آئی ٹی کی تفتیش کے نتیجے میں کچھ اضافی حقائق جن کی شہادتوں سے تصدیق ہوتی ہو اور وہ عملدارآمد بینچ کے سامنے رکھیں جائیں تو اس کی بنیاد پر کارروائی کرے گی۔تاہم جے آئی ٹی اضافی تصدیق شدہ حقائق تلاش نہیں کرسکی سوائے ان کے جو فاضل عدالت کے پاس پہلے ہی دستیاب تھے۔

قابل بھروسہ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے جن گواہوں سے بھی سوالات کیے ان سے کوئی نئی چیز نہیں پوچھی گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے خلاف نئی شہادتیں حاصل کرلی ہوتی تو گواہوں سے ان کے بارے میں پوچھا جاتا۔ حدیبیہ پیپرز میلزکے حوالے سے کچھ مسائل ہیں لیکن اس کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ 2مرتبہ مسترد کرچکی ہے اس کیس کی دوبارہ سے تحقیقات ہوسکتی ہے اور نئے سرے سے مقدمہ چلانے کا حکم جاری کیا جاسکتا ہے لیکن حدیبیہ پیپرز میلز کے حوالے سے کسی بھی ادارے کے پاس دستیاب کسی بھی معلومات کی بنیاد پر کوئی سخت حکم جاری نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس مقدمہ کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی کرچکی ہے۔

فوجداری مقدمات کے بعد سزا کے بغیر سپریم کورٹ کو کسی قانون ساز کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ سینئر آئینی ماہرین کے مطابق ماضی میں پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر قانون سازوں نااہل کرنے کے احکامات کو قانونی برادری نے پسند نہیں کیا تھا۔

ان ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ پاناما بینچ نے اپنے  ’’آرڈر آف دی کورٹ‘‘   میں نے  کچھ بڑے فیصلے کرنے کی جانب نشاندہی کی تھی جس کے لیے لارجر بینچ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔اگر ماضی کی اچھی مثالیں رہنمائی کرتی ہیں تو یہ تواقع کی جاسکتی ہے کہ یہ تو یہ مقدمہ ڈس مس ہوگا یا پھرجے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد چیف جسٹس لارجر بینچ تشکیل دیں گے۔

یہ خبر روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں پیر 10 جولائی کو شائع ہوئی۔

مزید خبریں :