پاکستان
19 جولائی ، 2017

پاناما کیس: منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ

پاناما کیس پر قانونی ماہرین کا تجزیہ

Posted by Geo News Urdu on Wednesday, July 19, 2017

سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران عدالتی بینچ نے ریمارکس دیئے کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 3 رکنی پاناما عملدرآمد بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد آج کیس کی تیسری سماعت کی۔

آج کی سماعت میں وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کیے اور  اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن کل اپنے دلائل مکمل کریں گے جب کہ حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی کل دلائل دیں گے۔

وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے آج دلائل کے آغاز  پر وزیراعظم کا جے آئی ٹی کو دیا گیا بیان پڑھ کر سنایا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کا فیصلہ جمعہ تک سامنے آجائے گا، فواد چوہدری

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ڈکلیئرڈ اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں، وزیراعظم نے گوشواروں کی صورت میں آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات دیں، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، وزیراعظم سے کسی اثاثے کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا اور جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے رشتے داروں نے کوئی جائیداد چھپائی اور نہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد ہے جب کہ نیب قوانین کے مطابق شوہر یا والدکو بیوی بچوں کےنام اثاثوں کاذمہ دارنہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

خواجہ حارث نے دلائل کے دوران نیب سیکشن کی شق 5 اے کا حوالہ بھی دیا۔

وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو جب کہ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ کسی کے گھر جا کر رہنے والے سے اس گھر سے متعلق نہیں پوچھا جاسکتا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیر استعمال ہونے کا ہے، مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ ملکیت کےعلاوہ ساری چیزیں واضح ہیں۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، زیر استعمال ہونا اور بات ہے، اثاثے سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے، کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ دوسرے کے گھر کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا؟

خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثے وزیر اعظم کے نام نہیں، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی اور قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خودکسی پراپرٹی کے مالک ہیں۔

وزیراعظم کے وکیل نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں اور لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا جب کہ ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں کہ وزیراعظم لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں، سپریم کورٹ

جسٹس اعجاز الاحسن نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈ کہاں سے آئے اور کہاں گئے؟ وزیراعظم نےکہا تھا کہ وہ سب کی منی ٹریل دیں گے، وزیراعظم نے یہ جواب نہیں دیا پراپرٹی کب خریدی اور فنڈ کہاں سے آئے۔

اس کے جواب میں خواجہ حارث نے مؤقف دیا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم کی ایما پر کسی نے پراپرٹی خریدی، بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ جسٹس عظمت نے خواجہ حارث کے دلائل پر کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت نیب قانون میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا تھا آپ اپنے دلائل دہرا رہے ہیں جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، جے آئی ٹی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم کا کوئی بے نامی دار ہے جب کہ کوئی اور دستاویز، گواہ نہیں کہ نوازشریف کےفلیٹ بے نامی دار کے زیر استعمال رہے۔

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے نہیں کہا کہ لندن فلیٹس کے اصل مالک وزیراعظم ہیں لیکن نام کسی اور کے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ فنڈز سعودی عرب، دبئی یا قطر میں تھے، سوال یہ ہے کہ فنڈز کیسے لندن پہنچے، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے کب اور کس نے ادائیگی کی؟

خواجہ حارث نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے کہا فلیٹ پورے خاندان کے ہیں جس پر جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کہا ان کے پاس تمام دستاویزات کی منی ٹریل موجود ہے، عدالت کے سوالوں کے جواب نہیں دیئے جارہے، نیلسن اور نیسکول سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں دی گئیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا جے آئی ٹی نے معلوم کروایا کہ مریم نواز بینیفشل مالک ہیں، باہمی قانونی معاونت سے بھی یہی بات ثابت ہوئی جس پر خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم سے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق پوچھا تھا، وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی تاہم تفصیلات کا علم نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سےمتعلق نتائج بھی اخذ کیے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قیاس آرائیوں پر مبنی نتائج اخذ کیے ہیں۔ جسٹس اعجاز نے جواب دیاکہ رپورٹ کی جلد نمبر 4 میں کافی خطرناک دستاویزات موجود ہیں، میرا اشارہ ٹرسٹ ڈیڈ سےمتعلق ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میاں شریف ہی اپنی زندگی میں تمام معاملات سنبھالتے تھے، جے آئی ٹی نے کہا کس کو کتنا شیئر ملنا ہے، فیصلہ میاں شریف کا تھا، وزیراعظم کے 2 بچے حدیبیہ ملز میں حصہ دار تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کا نام کرپشن میں کہیں نہیں ملے گا، عابد شیرعلی

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی، وزیراعظم کو علم تھا کہ وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں، وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ میں بتاؤں گا کہ کہاں سے فلیٹ لیے۔

جسٹس اعجاز  کے ریمارکس پر خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ وزیراعظم کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں، جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس سے متعلق غلط نتائج اخذ کیے، کیا وزیراعظم ان اثاثوں کے لیے جواب دہ ہیں جو ان کے ہیں ہی نہیں، وزیراعظم کے بچے 1995 تک ان کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف سرانجام دیتے تھے ، بچے1995 تک زیرکفالت تھے، صرف اس عرصے کا وزیراعظم سے پوچھا جاسکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے کہا وہ مالک ہیں مگر دستاویزات نہیں دی گئیں، یہ فرض کرلیں کہ یہ میاں شریف کے ہیں تو کچھ شیئر تو نواز شریف کا بھی ہو گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم کہناچاہتے ہیں ایسی کوئی دستاویز نہیں کہ نواز شریف فلیٹس کے مالک ہیں، ٹریجڈی یہ ہے کہ کون مالک ہے اس کی دستاویزات بھی موجود نہیں، اگر مالک کاپتا چل جائے تو یہ سوال آتا ہےکہ خریداری کے لیے پیسا کہاں سے آیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ فلیٹس کا اصل مالک کون ہے؟ فلیٹس کی دستاویزات ہی موجود نہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پراپرٹی کاجھگڑا ہو تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس کے نام ہے، فائدہ کون اٹھا رہا ہے، آپ کی بات سمجھتے ہیں جےآئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پرکرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رائے دستاویزات پر منحصر ہے یا نہیں جس پر خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ وزیر اعظم ان جائیدادوں اور رقم کے جوابدہ ہیں جو صرف ان کے نام ہے، وزیراعظم 1990 میں کاروبار سے الگ ہوچکے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ التوفیق کیس میں لندن عدالت میں شیزی نقوی کے بیان حلفی موجود ہیں، بیٹوں کے پاس ایسےکاغذات ہیں جس سےنوازشریف کا فلیٹس سے تعلق ظاہر نہ ہوتا ہو؟

خواجہ حارث نے کہا کہ وزیر اعظم لندن فلیٹس کے مالک نہیں ہیں جس پر جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو کاغذات آئے ہیں ان میں مریم بینیفشل اونر ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ بات سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ رکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، یہ فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے کہ کیس ہم سنیں یااحتساب عدالت کوبھجوائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ فلیٹس کی ملکیت چھپانے کے لیے تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ پوچھ پوچھ کر تھک گئے کون مالک ہے کوئی نہیں بتاتا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ بتایا تو ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ پیسے کہاں سے آئے اور کسے دیئے گئے واضح نہیں، آپ کا کہنا ہےکہ وزیر اعظم کی ملکیت سے متعلق کوئی دستاویز موجود نہیں، ایک بیٹا کہتا ہے جائیداد خریدی، دوسرا کہتا ہے حصے میں ملی، دیکھنا ہوگا کہ جائیداد نام کس کے ہے، مالک کا نام بتا دیں خریداری سورس واضح ہوجائے گا جب کہ برطانوی کمپنی منروا سے سروس معاہدے پر کس نے دستخط کیے وہ کاغذ دکھا دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ کا پورا انحصار قطری خط پر ہے، آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ تمام کاغذات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 کو خفیہ رکھنا بدنیتی ہے، وزیراعظم کا اعتراض

خواجہ حارث نے کہا کہ وزیر اعظم کے حوالے سے کسی کرپشن سے تعلق کا الزام تک نہیں، وزیر اعظم متعدد بار عوامی عہدوں پر رہے، ان والیم میں وزیر اعظم کے خلاف کچھ نہیں، قانون کی کیا منشا ہے، وہ بتا رہا ہوں، اس لیے عدالت سے گزارش ہے کہ فیصلے میں احتیاط برتی جائے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا دیکھنا ہےکہ کوئی شواہد ہیں جو وزیراعظم کو معاملے سے منسلک کرتے ہیں، یہ بھی دیکھنا ہے کیا ہم نےفیصلہ کرنا ہے یاکیس ٹرائل کورٹ بھیجنا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس فیصلے کا اختیار ہے، آپ کو تمام پتے شو کروانے چا ہیے تھے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کو عدالت کا اختیار نہیں سونپا تھا، کسی بھی تفتیشی ادارے کی تحقیقات کو ٹرائل سے گزرنا ہوتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وضاحت کے لیے یہ فورم نہیں، جے آئی ٹی نے تمام امور سے اسحاق ڈار کو جوڑا ہے تو ٹرائل کورٹ میں جواب دیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پہلے ہم مریم، حسن اور حسین کے وکیل کو سننا چاہتے ہیں جس پر ان کے وکیل سلمان اکرم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ رکارڈ کل رات موصول ہوا ہے جو آج یا کل جمع کرادوں گا۔ 

وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کیے جس کے بعد کیس کی سماعت میں تھوڑی دیر وفقہ لیا گیا۔ دوبارہ سماعت پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل ڈاکٹر طارق حسن نے دلائل کا آغاز کیا۔

طارق حسن کے دلائل کے آغاز میں بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے اسحاق ڈار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس تیاری کا بہت وقت تھا، امید ہے آپ زیادہ وقت نہیں لیں گے، آپ ویسی ہی معلومات دینا چاہتے ہیں جیسی ماضی میں دیں؟ اس پر طارق حسن کا کہنا تھا کہ میں یہ آبزرویشن واپس نہیں کرنا چاہتا جس کے جواب میں جسٹس عظمت سعید نے کہا واپس کر بھی دیں تو یہ پلٹ کر آپ کے پاس ہی آئے گی۔

جسٹس عظمت سعید نے اسحاق ڈار کے وکیل سے استفسار کیا، کیا اسحاق ڈار پر ٹیکس گوشوارے نہ دینے کا الزام تھا؟ جس پر طارق حسن نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے اپنی فائنڈنگ میں گوشوارے جمع نہ کرانے کا الزام لگایا، اسحاق ڈار کے خلاف کوئی براہ راست الزام نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی درخواست میں اسحاق ڈار کے خلاف کیا الزام تھا؟ کیا جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے خلاف کوئی سفارش کی ہے؟ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے اسحاق ڈار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 15منٹ ہو گئے ابھی تک آپ نے باضابطہ دلائل کا آغاز ہی نہیں کیا، جہاں سے بھی دلائل شروع کرنا چاہتے ہیں کر دیں۔

طارق حسن نےا پنے دلائل میں کہا کہ جےآئی ٹی نے 02-2001 تک کےگوشوارے فراہم نہ کرنے کا الزام لگایا، اپنے ٹرسٹ کو خیرات دینے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ گوشوارے ٹریس نہ ہونے کا مطلب گم ہونا یا فائل نہ ہونا ہے۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ایف بی آر اسحاق ڈار کی وزارت کے ماتحت ہے، بعد میں ایف بی آر کے پاس رکارڈ کہاں سے آیا؟ ایف بی آر نے جے آئی ٹی کو پہلے رکارڈ کیوں نہیں دیا؟ کیا ایف بی آر نے ٹیکس گوشوارے جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کیے؟ کیا متعلقہ رکارڈ نیب نے ایف بی آر یا جے آئی ٹی کو دیا تھا؟ نیب نےایف بی آر یا جے آئی ٹی کو رکارڈد یا تو دستاویزات دکھائیں۔

اسحاق ڈار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ان فائنڈنگز کی بنیاد پر اسحاق ڈار کا ٹرائل ہو سکتا ہے، اس نکتے پر میری تیاری بھی نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معاملہ اگر ٹرائل کی جانب گیا تو آپ کو پورا موقع ملے گا، آپ ٹرائل میں اپنا مؤقف درست ثابت کر سکتے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طور پر اعترافی بیان دیا، مبینہ اعترافی بیان کی بنیاد پر اسحاق ڈار کو معافی ملی، اسحاق ڈار بعد میں مبینہ اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے جس پر طارق حسن نے مؤقف اپنایا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے مزید کہا کہ جب ریفرنس خارج ہوا تب اسحاق ڈار فریق تھے نہ ملزم، جس پر طارق حسن نے دلائل دیئے کہ وہ معاملہ ختم ہو چکا اب دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا، کیا نیب نے تسلیم کیا کہ دستاویزات انہوں نے دیں؟ ایف بی آر نے پہلے کہا کہ رکارڈ ٹریس نہیں ہو رہا، کوئی خط و کتابت ہے تو سامنے لائیں، اگر رکارڈ نیب نے واپس کیا تو ریکوری میمو ضرور بنایا ہو گا، نیب نے اصل رکارڈ دیا یا فوٹو کاپی؟ 

اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نیب سے رکارڈ لے کر ایف بی آر کو دیا گیا تھا جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ چیرمین ایف بی آر نے کہا تھا 95 فیصد رکارڈ فراہم کر دیا ہے، اچانک رکارڈ ملا اور نیب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت کے دوران شیخ رشید کمرہ عدالت میں خراٹے لیتے رہے

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت کو صرف آڈٹ رپورٹس دی گئیں، کیا آپ نے رکارڈ اعتراضات کے ساتھ جمع کرایا؟ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت کو تو کم ازکم رکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔

طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں، گلف اسٹیل ملز میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے نام ٹرانزیکشنز ہیں، اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی مانگی، بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے جس پر ان کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاناما کیس کے عبوری فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ دیکھیں درخواست میں اسحاق ڈار کے خلاف ریلیف کیا مانگا گیا؟ اس وقت نااہل نہیں کر سکتے تھے اس لیے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ 

اسحاق ڈار کے وکیل نے اپنے مؤقف میں کہا کہ نیب نے فائل بند کر دی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم سارے معاملے پر آنکھیں بند کر لیں؟ پہلے عبوری حکم تھا، اب فیصلہ ہوگا، اسحاق ڈار کو بیان حلفی دینے پر معافی ملی، اگر اعترافی بیان کو تسلیم نہیں کرتے تو معافی بھی ختم ہو جاتی ہے،  کیا جب معافی ختم ہو گی تو معاملہ دوبارہ بحال نہیں ہو گا؟ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہم نے چیرمین نیب کو اپیل دائر کرنے کی ہدایت نہیں کی تھی؟

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس میں وزیراعظم کو بھولا بھالا کر کے پیش کیا جارہا ہے، سراج الحق

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید اور اسحاق ڈار کے وکیل میں مکالمہ ہوا جس میں جسٹس عظمت نے کہا کہ کوئی نئی بات ہے تو وہ کریں، آپ مزید دستاویز ہمارے فیصلے کے حوالے سے دینا چاہتے ہیں تو دیں، آپ کو ٹرائل کا پورا موقع ملے گا،  آپ کے خلاف درخواست پر کوئی فیصلہ تو نہیں کیا۔

اس پر طارق حسن نے دلائل دیئے کہ جےآئی ٹی میری دستاویزات کاجائزہ لیتی تو اسے پتاچلتا کہ میرے موکل کے اثاثے کم ہوئے۔ دلائل کے جواب میں جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ آپ سے جے آئی ٹی نے کاروبار کا پوچھا، کمائی پوچھی، یہ رویہ صرف آپ نے نہیں اس کیس میں سب نے اپنایا، پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں آپ نے حقائق بتائے، آپ نے تو کوئی دستاویزات نہ دینے کا مؤقف اپنایا، آپ نے تو کہا کمائی نہیں بتا سکتا، یہ میرا استحقاق ہے، آپ کے اثاثے 1993 میں 9 ملین تھے تو 2000 میں 854 ملین تک پہنچ گئے، اپنے خلاف الزامات کا جواب ٹرائل کورٹ میں دیں، جتنا رکارڈ دینا ہے آپ عدالت کو فراہم کریں، آپ کے بیان کی تصدیق ویڈیو رکارڈنگ سے ہو سکتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے طارق حسن سے استفسار کیا، کیا ہمارے رویئے پر بھی اعتراض ہے؟ دو صورتیں تھیں ہم درخواست مسترد کرتے یا مان لیتے، چاہتے تو ایسے ہی فیصلہ کرلیتے لیکن ہم نے قانون کو مدنظر رکھا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آپ کا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں کردار نہیں؟ اگر آپ کا کردار نہیں تو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، ہل میٹل کا ایشو ابھی زندہ ہے، ہم آپ کے نکات نوٹ کر لیتے ہیں،  وزیراعظم کی طرح آپ پر بھی کیس کے وہی اصول لاگو ہوں گے۔

طارق حسن نے کہا کہ میں اپنے لیے نہیں اپنے موکل کے لیے پریشان ہوں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے نعیم بخاری کہہ چکے ہیں کہ وکیل نہیں ہارتا موکل ہارتا ہے۔

جسٹس اعجاز نے استفسا کیا، کیااسحاق ڈار کے تمام اثاثوں کا نیب، ایف بی آر اور الیکشن کمیشن نے جائزہ لیا جس کے جواب میں اسحاق ڈار کے وکیل نے بتایا کہ نہ صرف جائزہ لیا ہے بلکہ درست قرار دیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ خواجہ حارث نے حدیبیہ ملز کا بہتر جواب دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کو کل تک متعلقہ دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں آج بھی سماعت کے موقع پر فریقین سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنما، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید سمیت دیگر اپوزیشن رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے جن کے آج دلائل دیئے جانے کا امکان تھا تاہم انہوں نے آج دلائل دینے سے معذرت کرلی اور وہ کل دلائل دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم کو صفائی کا موقع دینا تھا، سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ جمع کرانے کے بعد 17 جولائی سے جاری کیس کی سماعت میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے وکیل، شیخ رشید اور وزیراعظم کے وکیل بھی اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دینا تھا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے، جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہو گا۔

 واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے گزشتہ ہفتے 10 جولائی کو دس جلدوں پر  مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس کے مطابق شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد ہے۔

مزید خبریں :