03 مارچ ، 2015
ڈیلس......راجہ زاہد اختر خانزادہ/ نمائندہ خصوصی......کشمیری رہنما راجہ مظفر کشمیری نے بھارت کے خارجہ سیکرٹری جے شنکر کی پاکستان یاترا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دورہ پاکستان سے زیادہ پر امید نہیں ہوں،بھارتی سیکریٹری خارجہ کا دورہ بھی صرف فوٹو سیشن تک محدود رہے گا۔بھارتی خارجہ سیکرٹری جے شنکر کےدورہ پاکستان پر اپنے تبصرے میں ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تعلقات اور دونوں جانب جمی برف پگھل سکتی ہے؟ ایک ایسا سوال ہے جس کا انحصار دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور رویہ پر ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے وزرا اعظم نے اپنے اپنے مخصوص اندرونی حالات و مشکلات کی وجہ سے اس اہم معاملہ پر فیصلہ سازی کا اختیاراپنی اپنی فیصلہ ساز اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑ دیا ہے۔ فوٹو سیشن یا بریفنگ کے نوٹ پڑھ کر سنانے کیلئے جہاں ضرورت ہو گی سیاسی قیادت کو زحمت دیدی جائیگی۔ اس لیے مجھے کسی ٹھوس سیاسی فیصلے اور پیش رفت کی توقع نہیں، مودی اور نواز شریف کا اپنے عوام سے ترقی کا وعدہ پاک بھارت تعلقات کو یرغمال بنائے رکھے گا۔ اس حوالہ سے بطور یاد دہانی میں آج دونوں سربراہان مملکت اور بین الاقومی برادری کے ان مدد گاروں کو جن کی پس پردہ سفارتی کوششوں سے مذاکرات کی بحالی کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے کو اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کے وہ الفاظ یاد کرانا چاہوں گا کہ جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ہم بغیر ترقی کے سلامتی کو برقرارنہیں رکھ سکتے نہ ہی ترقی کے بغیر سلامتی ممکن ہے اور دونوں انسانی حقوق کے احترام کے بغیرممکن نہیں‘‘۔راجہ کشمیری کا مزید کہنا تھا کہ سترسال پہلے اقوام متحدہ نظام کےتین بنیادی ستون تشکیل دئیے گے تھے، امن وسلامتی، انسانی حقوق اورترقی، چونکہ بین الریاستی تصادم کا خطرہ بین الاقوامی امن اورسلامتی کے لئے بدستورموجود ہے۔ اس لیے وہ تین ستون آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے اقوام متحدہ کے قیام کے وقت تھے ۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت کا اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا ضروری ہے کہ خطرات اب قومی ریاستوں کے درمیان جھگڑوں تک محدود نہیں رہے، یہ خطرات اب سرحدوں سے ماورا، گہری نسلی ،گروہی اورمذہبی تقسیم کی بنیاد پرمتشدد غیرریاستی عناصر (جنہیں ریاستوں کے اندر ریاستیں بناے رکھنے والے افراد کی مدد حاصل ہے)اوردہشت گردوں کی شکل میں ہما وقت ہر اس جگہ جہاں حکومت قانون کے نفاذ میں ناکام ہوجائے اوراپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی پرواہ نہ کرے موجود ہیں ۔ بعض ممالک میں یہ خطرات اب ریاستوں کی خودمختاری کو ایسے انداز میںکمزور کررہے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اقوام متحدہ کے منشور کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت اپنے عوام کے بہترین مفاد میں کوئی بڑا مشکل فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں تو انہیں کھلے دل سے اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے تا کہ تصادم سے بچائو اور مسائل کے حل کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات کا وضع کردہ مکینزم سے استفادہ کیا جا سکے ۔یاد رکھیں دونوں ممالک ایٹمی اسلحہ سے لیس ہیںضد ،ہٹ دھرمی کسی بڑے انسانی سانحہ کو جنم دے سکتی ہے ۔ جموں کشمیر کے تنازع کے سب ہی فریقین کسی آسان ترین ایسے حل کی جانب بڑھنا چاہیئے جسے سب کیلئے قابل قبول بنایا جا سکے ۔