12 اپریل ، 2015
ڈیلس ......راجہ زاہد اختر خانزادہ...... پاکستان کے معروف صنعتکار عثمان غنی کھتری کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اگر امن و امان اور توانائی بجلی کا مسئلہ حل کر دے تو میں یہ بات گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان تھوڑے ہی وقتوں میں بہت ہی آگے نکل جائے گا، یہ بات انہوں نے اپنے دورہ ڈیلس کے دوران خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ ان کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری بلین روپوں پر محیط ہے اور ان دو مسائل کے سبب پاکستان کے سرمایہ کار دیگر ممالک میں اپنی سرمایہ کاری لے کر جا رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہمارا ملک پاکستان ہے اچھے اور برے جیسے بھی حالات ہوں ہم اپنا سرمایہ کسی اور ملک لے کر نہیں جا رہے اور نہ ہی جانے کی سوچ رکھتے ہیں انہوں نے کہاکہ میرے خاندان کے کچھ بچے امریکہ آئے ہیں مگر ان کو ایک لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم نہیں دی اور کہاکہ وہ اس پیسے سے کام کریں اس طرح سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے یہاں مزدوری کر رہے ہیں لیکن وہ یہاں پھر بھی خوش ہیں۔ عثمان غنی کھتری نے کہاکہ ہمارے خاندان کے بچے وہاں امن و امان کی بدتر صورتحال کے باعث یہاں امریکہ آئے ہیں انہوں نے کہاکہ انہوں نے محنت مزدوری کر کے ترقی کا زینہ طے کیا اس لئے وہ محنت پر یقین رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو قدرت نے وسائل سے مالامال کیا ہے مگر نااہل قیادت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے انہوں نے کہاکہ سرمایہ کاروں کو بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں ان کے کئی دوستوں کی اس طرح کی پرچیاں ملیں جس کے سبب ان کا وہاں جینا محال ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں بدمعاش کسی ایک پارٹی میں نہیں بلکہ تقریباً تمام پارٹیوں میں ہیں لیکن اب بہت کچھ ہو چکا ہے اس سب کو اب بند ہونا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ان کو ابھی تک کسی گروپ کی جانب سے کوئی بھتے کی پرچی نہیں ملی تاہم آپ سے بات کرنے کے بعد اگر مل جائے تو یہ دوسری بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے چاروں صوبوں میں سرمایہ کاری کی تاہم پاکستان میں صوبہ پنجاب اس وقت بھی تمام صوبوں سے بہتر ہے۔ انہوں نے کہاکہ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کے حوالے سے ایکسپورٹ میں ترقی کی وجہ وہاں امن و امان‘ توانائی‘ سرمایہ کاروں کو تحفظ ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے بھی ان کو مراعات دی گئیں جو بعدازاں پاکستان کو ملیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات یقیناًحیرت پر مبنی ہے کہ جو ملک ایک اونس کپاس پیدا نہیں کرتا وہ ٹیکسٹائل میں اس وقت سب سے آگے جا رہا ہے جس کی وجہ تعلیم اور حکومتی پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف ضرور ایک صنعتکار وزیراعظم ہیں لیکن وہ بھی وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہی کام کر سکتے ہیں ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ یکدم سب کچھ درست کر دیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے نواب شاہ میں پلانٹ لگایا مگر نوازشریف کی سابقہ حکومت میں اس کو سہولیات فراہم نہ کر نے کے سبب بند کرنا پڑا تاہم جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں تو یقیناًوہ اس بند صنعت کو چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ پاکستانی سرمایہ کار جو کہ امریکہ میں رہتے ہیں وہ ضرور پاکستان میں سرمایہ کاری کریں لیکن سرمایہ کاری ایسی جگہ کی جائے جہاں پر توانائی کی ضرورت نہ پڑے تاہم اگر صحیح مشورہ دوں تو میں ان کو سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا اُس وقت تک کہ جب پاکستان میں امن و امان اور انرجی کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا انہوں نے کہاکہ ہماری صنعتیں چار ماہ بند رہتی ہیں اور 8 ماہ ہم کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے غربت کے دن بھی دیکھے سائیکلوں پر کاروبار کئے تاہم سخت محنت کے بل بوتے پر انہوں نے اتنی ترقی کی انہوں نے کہاکہ ترقی کی یہ منازل انہوں نے پورپ کے دورہ کے بعد طے کیں جہاں سے ان کو جدید دنیا سے رابطہ کا موقع ملا۔ انہوں نے کہاکہ 1955ء کے زمانے میں انہوں نے پہلی مرتبہ جب 500 روپے کمائے تو اس بات پر یقین ہوا کہ بزنس سے دوگنی چوگنی رقم کمائی جا سکتی ہیں جس کے بعد انہوں نے ایک دن میں ایک لاکھ روپے بھی کمائے۔ عثمان غنی کھتری نے کہاکہ ٹیکسٹائل کے بعد انہوں نے کیمیکل فیلڈ میں قدم رکھا اور پرائیویٹائزیشن کمیشن کے ذریعے 1995ء میں بولی دے کر اتحاد کیمیکل کی صنعت کو حاصل کیا انہوں نے کہاکہ اس وقت ہم نے اس پر سرمایہ کاری 65/70 کروڑ روپے کی۔ اس وقت وہ صنعت منافع بخش ہے جو کہ پہلے خسارے میں چل رہی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں کہ آپ کی آصف زرداری سے پارٹنر شپ ہے؟‘ اس پر انہوں نے کہاکہ ایسے لوگوں سے میں پارٹنر شپ کیسے کر سکتا ہوں میرا تعلق اُن سے صرف اتنا تھا کہ میں نے نواب شاہ میں سرمایہ کاری کی تھی۔