16 اپریل ، 2015
کراچی......رفیق مانگٹ......امریکا میں پاکستانی سفارت خانے نے امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے اداریے ’’جنوبی ایشیاء میں جوہری خدشات ‘‘پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے پریس اتاشی ندیم ہوتیانہ نے اخبار کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد پاکستان پر اداریے کے فوکس کرنے کا انداز پریشان کن ہے، بدقستی سے اداریے میں پاکستان کے تاثر کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں بنا نے میں لاپروائی سے کام لے رہا ہے، لیکن پاکستان جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کو متعارف کرانے والاپہلا ملک نہیں سب سے پہلے یہ اقدام بھارت نے اٹھایا، پاکستان نے خالصتاً اپنے دفاع کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کی،افسوس کا مقام ہے کہ امریکی اخبار نے اپنے اداریے میں بھارت کے جارحانہ فوجی انداز اوراس کی ایٹمی اور میزائل صلاحیت کے پھیلاؤ کا حوالہ دینے سے آسانی سے گریز کیا، بھارت کو جوہری تجارت کے لئے خصوصی چھوٹ دینا جنوبی ایشیا کے اسٹریٹجک استحکام کے لئے نقصان دہ ہے۔پاکستان روایتی یا ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں رہنے کاخواہش مند نہیں۔ دہشت گردی سمیت باہمی تشویش کے تمام مسائل کو حل کرنے کےلئے پاکستان نے بھارت سے تسلسل سے مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کو اسٹریٹجک گریزکی تجویز کسی مثبت جواب کے بغیر 1999ء سے میز پر ہے۔ اس تناظر میں بھارت کے اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے خصوصی طور پر پاکستان کی طرف انگلی کا اشارہ بالکل چونکانے والا ہے۔ پاکستانی اتاشی نے اخبار کو لکھا ہے کہ آپ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی پاکستانی کوششو ں اور مطالبے کی حمایت کریں۔ اس طرح کی اپروچ غیر امتیازی ہو وہ جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے لئے بہتر موقع فراہم کرے گی۔ یاد رہے کہ امریکی اخبار نے 6اپریل کو اپنے اداریے میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام روکنے کے لئے تو مذاکرات کیے گئے وہیں امریکا اور دوسری بڑی طاقتوں چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو اپنا رخ جنوبی ایشیاء میں بڑھتے جوہری خطرات کی طرف موڑ دینا چاہئے۔ دنیا کے سب سے تیزی سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے ساتھ پاکستان بڑی تشویش ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے چین سے 5ارب ڈالر کی جوہری میزائلوں سے لیس 8ڈیزل الیکٹرک آبدوزوں کی خریداری کے ایک نئے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان نے جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا۔ پاکستان کے پاس اس وقت 120جوہری وارہیڈز ہیں جو آئندہ دہائی میں تین گنا ہو جائیں گے، اتنی تیزی سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا پاکستان کا کوئی جواز نہیں بنتا اس کے مقابلے میں بھارت کے پاس 110جوہری ہتھیار ہیں اور ان کی تیاری کا عمل سست ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے بھارت پر ممبئی حملوں جیسا کوئی اور حملہ پاکستان کے خلاف جارحیت کا باعث بن سکتا ہے۔ اخبار نے بھارتی گن گاتے ہوئے لکھا کی ایک متحرک جمہوریت بھارت نے علاقائی اقتصادی اور سیاسی طاقت بننے پر توجہ مرکوز کی ہے جبکہ پاکستان افراتفری میں ڈوب رہا ہے جسے اقتصادی تباہی، سیاسی اداروں کی کمزوری اور سب سے زیادہ طالبان کی شورش سے خطرہ ہے۔ جدید فوجی سامان جن میںنئی آبدوزیں، 17سو میل کے میڈیم رینج کے شاہین تھری میزائل، شارٹ رینج کے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار پاکستان کو لاحق خطرات کے خلاف دفاع میں ان کااستعمال بہت کم ہے، پاکستان کا ان نظاموں پر اربوں ڈالر ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ پاکستان اپنی عوام کے لیے صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع میں سرمایہ کاری کرے۔ بھارت کی روایتی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے پاک فوج جوہری ہتھیاروں پر انحصار کر رہی ہے۔ پاکستان نے یہ بھی راستہ کھلا رکھا ہے کہ تصادم کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں وہ پہل کرسکتا ہے۔ چین بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو ترقی دے رہا ہے اور اس وقت اس کے 250ہتھیاروں کا تخمینہ ہے، تینوں ممالک بحر ہند میں ایٹمی ہتھیار تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں ایران کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء کی صورت حال کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔