پاکستان
03 جون ، 2015

پاکستانی دہشت گردی اور پر تشدد واقعات کے عادی ہو چکے ،امریکی جریدہ

 پاکستانی دہشت گردی اور پر تشدد واقعات کے عادی ہو چکے ،امریکی جریدہ

کراچی.... رفیق مانگٹ......امریکی جریدہ ”فارن پالیسی“اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ پاکستانی دہشت گردی اور پر تشدد واقعات کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستان سے باہر سمجھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا ایک واقعہ آئندہ واقعے کا پیش خیمہ ہے لیکن پاکستان میں اور خصوصاً شہروں میں ملک جنگ زدہ کی جھلک پیش نہیں کرتا۔ نومبر میں واہگہ بارڈر کے تباہ کن خود کش حملے اوراس کے بعد دہشتگردی کے مسلسل واقعات کے باوجود لاہو مسلسل تعمیراتی عمل، جام ٹریفک رش اور موبائل فون پر منظم کاروبار کی سرگرمیوں کی ایک چونکا دینے والی سرمایہ کاری سے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے ساتھ ملنے کی کوشش میں ہے۔ کاروں کی فروخت عروج پر ہیں اورا سٹاک مارکیٹ فروغ پزیر ہے۔ شہری جدید زندگی کی آسائشوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیںاور حملوں اور تشدد کی خبریں اس تزئین میں دھندلاہٹ کا شکار ہیںاور ہر روز زندگی آگے کی طرف رواں دواں ہے۔پاکستانی کہیں زیادہ محدود زندگیاں گزار رہے ہیں۔ دہشت گردی کو ہر کوئی اپنے لحاظ سے معانی پہناتا ہے ۔ جنرل ضیاءکے ملٹری دور سے قبل ستر کی دہائی میں پاکستانی لبرل تھے ،انہوں نے ذاتی اور سیاسی آزادیوں پر قدغنیں لگائیں،ان کے گیارہ سالہ دور آمریت اور آج میں واضح فرق یہ ہے کہ اس دور میں لوگوں کی جانیں نہیں لی جاتی تھیں۔ دہشت گردی کے ساتھ یہ قدغنیں دوبارہ جمہوری دور میںنئے انداز میں آئیں۔ آج شہری علاقوں میں سیکورٹی وجوہ پر لوگوں کسی تقریب کے لئے اپنے گھروں کے باہر موسیقی کنسرٹ منعقد نہیں کرسکتے۔ نوے کی دہائی میں بھی یہیں صورت حال تھی۔آج صرف ایک آمر نہیں ہے جو اظہار رائے،عمل یا عقیدے پر قدغن لگائے بلکہ آج کئی درجن دہشت گرد گروہ اور ہزاروں دہشت گرد کنٹرولنگ آمر ہیں۔ ان کے ہتھیار کوئی جیل نہیں بلکہ تشدد ہے،اظہار رائے اور تنوع کےلئے پاکستان میں محدود ہوتی جگہ نے پاکستانی آبادی میںآزاد مفکرین اور تخلیقی گروپوں کی تعداد میں کمی کردی ہے، یہ صورت حال تشویشناک ہے اگر پاکستان اس دوراہے پر رہا تو چیزوں کو واپس معمول پر لانا مشکل ہوجائے گا۔یہاں تک کہ بڑھتی ہوئی قدامت پسندی اور عدم برداشت کے باوجود انٹلیکچوئیل زندگی اور لبرل سوچ ابھی بھی پاکستان میں موجود ہے۔آج بھی پاکستانی یونیورسٹیوں میں صحت مند مباحثے ہوتے ہیں وہاں روسو اور چومسکی جیسے مفکرین کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے مباحثے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں؟، ریاست کو اپنے شہریوں کے تحفظ کی ضمانت، اور عبادت کے حق کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر، کوئی گرینڈ سرمایہ کاری کے منصوبوں، منصوبہ بند معاشی کوریڈورز، یا خوشحالی کے لئے رقم کا خرچ قابل قدر نہیں ہوگا۔جریدہ لکھتا ہے کہ 2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے کرکٹ کے بند دروازے کھلنے اور زمبابوے کرکٹ ٹیم کی میزبانی سے پاکستان میں خوشی کا سماںہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم کرکٹ کے پرستاروں سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستانیوں کو مسرت کے یہ لمحات میسر ہوئے جنہیں کچھ عرصہ قبل سیکورٹی کا بہانہ بنا کران سے محروم کردیا جاتا تھا۔گزشتہ پانچ ہفتوں میں پاکستان میں کئی دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں صرف کراچی میں بس میں قتل عام، پروفیسر اور این جی او کی سربراہ کا قتل ہوا۔ یہ صرف اس مدت کے دوران چند حملوں کے واقعات ہیں،ان تینوں واقعات میں لوگوں کو نشانہ ان کے الفاظ، اعمال، یا عقائد کی وجہ سے بنایا گیاپشاور اسکول حملے کے بعد سیکورٹی اقدامات اٹھائے گئے۔اب کسی اسکول یا یونیورسٹی کا دورے کے دوران کئی حفاظتی دروازوں، پوچھ گچھ اور اسکریننگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ چھٹی کے وقت والدین کو اپنے بچوںکے اسکول میں داخلے کی اجازت نہیں۔ انہیں گارڈ کو ا پنا قومی شناختی کارڈ جمع کرانے اور کارڈ کی تصدیق کرانی پڑتی ہے اور انہیں اسکول دروازے پر بچے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی مسلسل دہشت گردی کے واقعات کے عادی ہو چکے ہیں۔ پرمسرت لوگوں کی2015 کی عالمی درجہ بندی میں 158ممالک میں پاکستانی81درجے پر ہیں جب کہ بھارتی117اور بنگلا دیشی109درجے پر ہیں۔ لیکن اس طرح موافقت بھی خطرناک ہے،عدم تحفظ کا عادی ہوجانا بہتر نہیں۔

مزید خبریں :