03 جون ، 2015
کراچی......ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل نے کہا ہے کہ ایم کیوایم بلدیہ ٹائون سیکٹر یونٹ 117کے کارکن وسیم دہلوی کے ماورائے عدالت قتل سے ثابت ہوا کہ ایم کیوایم کے کارکنوں کو دوبارہ لاپتہ کرنے اور ماورائے عدالت قتل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے،یہ سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر ایم کیوایم نے بدھ اور جمعرات کو دو روزہ پرامن یوم سوگ کا اعلان کیا ہے ،ہم یوم سوگ کی حمایت پر تاجروں ، دکاندروں اور کاروباری حضرات کے شکر گزار ہیں ،ایم کیوایم کے 92کارکنان ایسے ہیں جنہیں کراچی آپریشن میں حصہ لینے والی مختلف ایجنسیوں نے گرفتا رکیا ہے اور وہ آج کے دن تک تاحال لاپتہ ہیں ،آپریشن کے دوران ایم کیوایم کے40کارکنان ماورائے عدالت قتل کئے جاچکے ہیں ان میں سے کسی ایک کارکن کا قاتل تاحال گرفتارنہیں ہوا ہے انہوں نے صدر ، وزریاعظم ، وفاقی وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کو بھی دیکھیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے ، عدلیہ کی کراچی کے بچوں کے معاملے میں خاموشی سوالیہ نشان ہے ،ایم کیوایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ کئے جانے کے واقعات پر فوری جوڈیشل کمیشن بنایاجائے ۔ ان خیالات کااظہار انہوںنے بدھ کی شام عزیز آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر عارف خان ایڈووکیٹ ، سینیٹر طاہر مشہدی اور رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم بھی موجود تھے ۔ خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ پیر اور منگل کی درمیانی شب سادہ لباس پولیس اہلکاروں نے بلدیہ ٹائون نمبر 3میں وسیم دہلوی کے گھر پر چھاپہ مارا اور وسیم دہلوی شہید سمیت ان کے دو بھائیوں نعیم اور عادل کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر لے گئے ۔ ان کے اہل خانہ اور ہم ان کے متعلق تمام ایجنسیوں ، پولیس سے معلومات کرتے رہے لیکن سب لاعلمی کااظہار کرتے رہے ۔یہ سلسلہ بہت عرصے سے جاری ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس سرکاری اہلکار گھروں میں گھس کر،بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں آکر ایم کیوایم کے کارکنان کو گرفتاری کے نام پراغوا ء کرتے رہے ہیں اور ایسے واقعا ت میں درجنوں ساتھی آج تک لاپتہ ہیں یا پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں شہر کے ویرانوں سے ملی ۔ آج وسیم دہلوی شہید جن پر عزیز بھٹی تھانے میں بے تحاشہ تشدد کیا گیا اور جناح اسپتال میں جب ان کی تشدد زدہ لاش لائی گئی اور پوسٹ مارٹم سے ثابت ہوا کہ ان کی شہادت بہیمانہ تشدد کے ذریعے ہوئی ۔ اسی عزیز بھٹی تھانے میں پولیس کا ایک جعلی ٹارچر سیل برآمد ہوا تھا اور اس کے بعد پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا تھا اور ان کے افسران و اہلکاروں کے نام میڈیا پرآچکے تھے اوروسیم دہلوی شہید پر دوران حراست تشدد میں جن پولیس افسران اور اہلکاروں کے نام سامنے آئے ہیں انہیں اس قسم کے تشدد میں ملوث ہونے پر پہلے بھی ہٹایا گیا تھا پھر انہیں کس کی ایماء پر دوبارہ تعینات کیا گیا ؟ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی ؟ ۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ چند ہفتوں میں ہمارے نیو کراچی کے سیکٹر انچارج علی رضا ، گلشن اقبال کے سیکٹر انچارج محمد شاہد ، مرکزی میڈیکل ایڈ کمیٹی کے رکن فرید کو اسی انداز میںاغواء کیا گیا اور آج تک ان کا پتا نہیں چل رہا ہے اور اس کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ ہم دکھ کے ساتھ کہتے ہیں کہ مظلوم لوگوں کیلئے واحد سہارا عدلیہ ہوتی ہے لیکن ہمارے ان بے گناہ کارکنوں کو عدلیہ بھی کوئی ریلیف فراہم نہیں کررہی ہے ۔رابطہ کمیٹی کے رکن عامر خان جنہیں 11مارچ 2015ء کو نائن زیرو پر چھاپے کے دوران یہ کہہ کر لے جایا گیا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں مگر اب اطلاعات ہیں کہ انہیں بھی جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کو کسی کھلی انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاہا ہے ۔کراچی میں اس وقت پاکستان کانہیں بلکہ جنگل کاقانون نافذہے ۔ذوالفقارمرزانے اپنی نجی فوج بنائی ، ان میں کھلے عام اسلحہ تقسیم کیا، اس کے مسلح دہشت گردوں نے پولیس اورسرکاری اہلکاروںپر حملوں کے لئے مورچہ بندہوکرکارروائیاں کیں ، تھانوںپر حملہ کیا، پولیس افسران تک کوتشددکا نشانہ بنایالیکن پولیس ،رینجرزنے اس کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کوتحفظ فراہم کیا لیکن ایم کیوایم کے بے گناہ کارکنوں اورذمہ داروںکوگرفتارکیاجارہاہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ٓاپریشن کے دوران 190کارکنان کا شہید ہونا کراچی میں آپریشن کرنے والے تمام اداروں اور حکومت کیلئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ان 190لوگوں میں سے کسی کا قاتل گرفتا رنہیں ہوا ہے ۔سندھ پولیس نے غیر قانونی طورپر اپنے پرسنل ڈیتھا سکواڈ بنا رکھے ہیں ،سندھ کی نسل پرست پولیس کراچی کے نوجوانوں کو اپنے تعصب کاشکار کررہی ہے بلکہ شہر یوںکو بھی لوٹ رہی ہے لوگوں کو پکڑ کر ان سے بھتہ لیتی ہے ۔ انہوں نے سندھ پولیس کو متنبہ کیا کہ ایسا نہ ہو کہ کراچی کے عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے۔