پاکستان
29 جون ، 2015

پاکستانی ڈاکٹرز بھارت میں جوتے فروخت کرنے پر مجبور

پاکستانی ڈاکٹرز بھارت میں جوتے فروخت کرنے پر مجبور

کراچی.........رفیق مانگٹ.........بھارتی اخبار کے مطابق پاکستانی تربیت یافتہ ڈاکٹرز بھارت میں جوتے فروخت کرتے ہیں، کوئی موبائل ریپئرنگ کی دکان پر اور کوئی اسپتال کے مردہ خانے میں نعشوں کو ٹھکانے لگاتا ہے، تو کوئی میڈیکل اسٹور پر اور کوئی خیراتی اسپتال میں سیوا کرتا ہے۔ پاکستان کی بہترین میڈیکل یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ایم بی بی ایس، پاکستان میں ماہانہ لاکھوں کمانے والے آج بھارت میں چند ہزار روپے کی خاطر معمولی سی نوکری کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ بھارتی شہریت نہ ہونے اور میڈیکل کونسل کی طرف سے اجات نہ ملنے کی وجہ سے وہ طبی شعبے میں خدمات انجام نہیں دے سکتے۔ بھارتی گجرات میں 200پاکستانی ڈاکٹر اسی طرح کی صورت حال سے دو چار ہیں۔ بھارتی اخبار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستان سے تربیت یافتہ ڈاکٹر بھارتی شہر احمد آباد میں جوتے فروخت کرتے ہیں۔ 2001میں 38سالہ دشراتھ کیلا نے بطور ڈاکٹر اپنے کیرئیر کا آغاز ماہانہ 25ہزار تنخواہ سے کیا۔ 9سال بعد اب وہ مانی نگر میں اپنے کزن کے جوتوں کے اسٹور پر اسسٹنٹ ہیں اور ماہانہ 15ہزار وصول کرتے ہیں۔ دشراتھ کیلا نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا اور2006 میں اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے خوف سے پاکستان چھوڑ گیا۔ وہ بھارت میں ڈاکٹری کی پریکٹس اس لئے نہیں کرسکتے کہ ان کے پاس بھارت کا میڈیکل کونسل ایم سی آئی کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ بھارتی گجرات میں پاکستان اور خصوصاً سندھ سے تعلق رکھنے والے 200کے قریب ڈاکٹرز ہیں، ان کے پاس طبی تعلیم اور مہارت ہے، لیکن ان کے ہاتھ بھارتی شہریت کی بے یقینی صورت حال اور سرخ فیتہ کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں۔ انڈین میڈیکل کونسل کی اجازت کے بغیر وہ طبی شعبے میں پریکٹس نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز بھارت میں میڈیکل اسٹورز، موبائل ریپئرنگ کی دکانوں پر کام کرتے ہیں، جس سے انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ ان میں سے کچھ اسپتالوں میں قبرستان شفٹ میں کام کرتے ہیں اور اپنی خدمات رضاکارانہ یا خیراتی انداز میں پیش کرتے ہیں، کیونکہ ان کی قانونی طور پر خدمات حاصل نہیں کی جاسکتی۔ زیادہ تر پاکستانی ڈاکٹرز اپنے جان کے خوف سے گجرات چلے گئے ہیں۔ وہ یہ الزام دیتے ہیں کہ سماج دشمن عناصر کی طرف سے پاکستان میں مقیم ہندو برادری کی لڑکیوں کے اغوا اور بھتہ خوری کا سامنا ہے۔ احمد آباد میں نقل مکانی کرنے والی سندھی آبادی اب اپنے قیام کو زیادہ پرسکون سمجھتی ہے۔ 46سالہ ڈاکٹر جیارام لوہانہ 2012میں بھارت آنے سے قبل سندھ میں ماہانہ 1لاکھ روپے کماتے تھے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مریض انہیں دیوتا کا روپ سمجھتے ہیں، یہاں بھارت میں زندہ رہنے اور ملازمت کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اب وہ ائیرپورٹ کے نزدیک اپنے کزن کی موبائل ریپئرنگ شاپ پر کام کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم دہشتگردوں کے خوف سے یہاں آئے اور یہاں تحفظ پایا۔ لیکن کوئی بھی یہاں مدد دینے کو تیار نہیں۔ لوہانا اب20000 ماہانہ پر ایک خیراتی اسپتال میں سیوا کرتے ہیں۔ انہوں نے دیہی علاقے میں ایک میڈیکل افسر کی ملازمت کے لئے درخواست دی، ان کی درخواست میڈیکل کونسل آف انڈیا کے پاس تصدیق کے لئے بھیجی گئی، لیکن درخواست کی تصدیق کرنے سے اس لئے انکار کردیا گیا، کیونکہ وہ بھارتی شہری نہیں ہیں۔ میڈیکل کونسل آف انڈیا کے چیئرمین ڈاکٹر جے شری مہیتہ کا کہنا ہے کہ ایک غیر ملکی تعلیم یافتہ ڈاکٹر کو بھارتی شہریت حاصل کرنی پڑتی ہے اور بھارت میں ڈاکٹری پریکٹس کے لئے لازمی اسکریننگ ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ قواعد کے مطابق پاکستانی7 سال بھارت میں قیام کے بعد بھارتی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس عمل میں2 سے3 سال کا عرصہ لگتا ہے اور پھر ایم سی آئی میں سرخ فیتہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 42سالہ ڈاکٹر گردہری لال سنچانی نے1997 میں کراچی سے ایم بی بی ایس کیا اور2001 میں بھارت آئے فروری 2014میں انہیں بھارتی شہریت مل گئی، لیکن اب انہیں میڈیکل کونسل آف انڈیا کی منظوری کا 14ماہ سے انتظار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں بہتر زندگی کے لیے آئے تھے، یہاں تحفظ تو ہے لیکن باقی ملازمت ہے نہ کوئی کاروبار کرسکتے ہیں، نہ ہی انہیں جائداد خریدنے کی اجازت ہے۔

مزید خبریں :