05 اگست ، 2015
اسلام آباد .......فوجی عدالتیں برقرار رہیں گی، ججز تقرری کا طریقہ کار بحال رہے گا۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے 18ویں اور21ویں آئینی ترامیم پر فیصلہ سنا دیا۔ ترامیم کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ 21ویں ترمیم کو کالعدم قرار دینا لازمی ہے، پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں، اس کے ترمیم کے اختیارات لامحدود نہیں۔چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ بنچ نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔21ویں اور 18ویں ترامیم کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو اکثریت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کی آئینی ترمیم کو برقرار رکھتے ہوئے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف تمام درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کیں۔ 17 ججز میں سے 11 نےفوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستیں مسترد کیں جبکہ 6 ججز نے فوجی عدالتوں کو مسترد کر دیا۔اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار، خواتین کی مخصوص نشستوں سمیت دیگر آئینی نکات کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں بھی اکثریت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ اٹھارویں آئینی ترامیم کے حق میں 14 ججز جبکہ مخالفت میں 3 ججز نے فیصلہ دیا۔ فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا25صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی شامل ہے جو اردو میں لکھا گیا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس بات سے متفق ہیں کہ 21 ویں ترمیم کا کالعدم ہونا لازمی ہے، پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں ،پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے اختیارات لامحدود نہیں، پارلیمنٹ کے اختیار کی حدیں نہ صرف سیاسی نوعیت کی ہیں بلکہ آئین سے بھی مترشح ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا کہ عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی ترمیم کو مخصوص حالات میں کالعدم قرار دے سکتی ہے ،منتخب نمائندگان کوئی بھی ایسا قانون یا آئینی ترمیم نہیں لا سکتے جو عوام الناس کے احکامات کے برعکس ہو ،ایسا قانون یا ترمیم جو جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہو یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو منتخب نمائندگان کے اختیارات میں شامل نہیں، آرٹیکل 51 کے تحت اقلیتوں کے انتخاب کا طریقہ کار کالعدم قرار دیا جائے ، آرٹیکل 51 کی ترمیم سے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے ۔