05 اگست ، 2015
اسلام آباد ......سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نےکہا ہے کہ پارلیمنٹ مقتدر اعلی نہیں ہے ،ایسا قانون یا ترمیم جو جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہو یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو منتخب نمائندوں کے اختیارات میں شامل نہیں۔ 21ویں آئینی ترمیم پرسپریم کورٹ کے جاری فیصلےپر25صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں انہوں نے کہا کہ21ویں ترمیم کو کالعدم قرار دینا لازمی ہے، پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں، اس کے ترمیم کے اختیارات لامحدود نہیں۔اردو میں لکھے گئے اختلافی نوٹ میںجسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس بات سے متفق ہیں کہ 21 ویں ترمیم کا کالعدم ہونا لازمی ہے، پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں ،پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے اختیارات لامحدود نہیں، پارلیمنٹ کے اختیار کی حدیں نہ صرف سیاسی نوعیت کی ہیں بلکہ آئین سے بھی مترشح ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا کہ عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی ترمیم کو مخصوص حالات میں کالعدم قرار دے سکتی ہے ،منتخب نمائندگان کوئی بھی ایسا قانون یا آئینی ترمیم نہیں لا سکتے جو عوام الناس کے احکامات کے برعکس ہو ،ایسا قانون یا ترمیم جو جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہو یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو منتخب نمائندگان کے اختیارات میں شامل نہیں، آرٹیکل 51 کے تحت اقلیتوں کے انتخاب کا طریقہ کار کالعدم قرار دیا جائے ، آرٹیکل 51 کی ترمیم سے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے ۔