پاکستان
06 اگست ، 2015

سپریم کورٹ کے آئینی ترامیم کیس کے فیصلے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی

سپریم کورٹ کے آئینی ترامیم کیس کے فیصلے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی

اسلام آباد.......سپریم کورٹ کے آئینی ترامیم کیس کے فیصلے نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں فیصلے نے آئین میں موجود اسلامی شقوں کو آئین کے بنیادی خدوخال سے نکال دیا ہے جبکہ دیگر حلقوں کا کہنا ہے کہ اسلامی شقیں مقدمے کا مرکزی نکتہ ہی نہیں تھیں۔ اسلامی شقوں کو آئین کے بنیادی خدوخال سے نکال دیے جانے کا معاملہ چیف جسٹس ناصرالملک اور جسٹس عظمت سعید کی جانب سے لکھے گئے فیصلے کے مندرجات کو سامنے رکھ کر کیا جارہا ہے اور یہ موقف پیش کیا جارہا ہے کہ اس فیصلے میں جمہوریت، پارلیمانی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی کو آئین کے بنیادی خدوخال قرار دیا گیاہے، جبکہ اسلامی شقوں اور 1948میں پہلی قانون ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد کو، جسے آئین کے ابتدائیہ کی حیثیت بھی حاصل ہے ، آئین کے بنیادی خدوخال قرار نہیں دیاگیا۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کی پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے آئین میں دی گئی اسلامی شقوں کو ختم کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیاہے۔ اس نکتہ نظر کے مخالف حلقوں اوربعض آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ اس کے ذریعے آئین کے بنیادی خدوخال کا تعین کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ بنیادی خدوحال میں جمہوریت، پارلیمانی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی شامل ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقدمے کے ذریعے عدلیہ کی آزادی، پارلیمانی طرز حکومت یا فوجی عدالتوں کے قیام کے معاملات کو اٹھایا گیا تھا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ماضی میں بہت سے مقدمات میں سپریم کورٹ وفاقی نظام حکومت اور اسلام کو آئین کے بنیادی خدوحال قرار دے چکی ہے۔ اس لئے فیصلے سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتاکہ سپریم کورٹ نے آئین کے بنیادی خدوحال کو طے کردیا ہے یا اسلام کو آئین کے بنیادی خدوخال سے نکال دیا ہے۔

مزید خبریں :