15 دسمبر ، 2015
پشاور......دہشت گرد بہادر بچوں کو ڈرا نہیں سکے، بڑوں کو جُھکا نہیں سکے، شکست کھاگئے،خون رنگ لاتا ہے، خون رنگ لے آیا، آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد قوم ایک ہوگئی، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت گئی،انتہاپسندی کو مٹانا ہے، ہر بچے کو پڑھانا ہے۔
16دسمبر 2014ءجب پھولوں کے دیس پشاور میں 132پھولوں سے زندگی کی خوشبو نوچ لی گئی، علم کی شمع سے دنیا میں اجالا پھیلانے والے ان ننھے فرشتوں کے لہو نے جہاں 18کروڑ پاکستانیوں کو خون کے آنسو رلایا، کرب سے تڑپایا، وہیں دنیا کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اپنے لہو سے چراغ جلانے والو تمہیں سلام، وطن کے دشمنوں نے دل توڑا لیکن، حوصلہ وہ تو، آگ میں تپ کر کندن ہوچکا، وقتی رنجشیں، اختلافات انا کے بت گرا کردہشت گردوں کے مقابلے میں سب سیسہ پلائی دیوار بن گئے، کیونکہ غم سانجھا تھا،دشمن نے اپنوں کا نشانہ بنایا تھا۔
غم بڑا تھا،لیکن بڑی قوم کا عزم بھی فولاد تھا،اپنے ساتھیوں کی یادوں کے دیے دلوں میں جلائے یہ ننھے سپاہی ایسے واپس آئے کہ خوف بھی خوف سے کانپ اٹھا۔
سال بیتنے کو آیا لیکن پھولوں کی مہک اب بھی ان ساتھیوں کو ڈھونڈتی ہے،جن کی مسکراہٹ سے فضا مہکا کرتی تھی،جس بورڈ پر ٹاپ کرنے والوں کی لسٹ آویزاں ہوتی تھی،وہاں ان بچوں کے ناموں کی فہرست ہے جو زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں اول آئے۔
علم کی روشنی سے اندھیروں کو دور بھگانے کا عزم سینے میں جگائے،طالب علموں کا وہی نظم و ضبط ویسی ہی ہمت وہی چٹان جیسا حوصلہ جو 16دسمبر کو بھی تھا،مجال ہے جو ذرا بھی لغزش آئی ہو ۔
16ٰدسبر کی تاریک رات سے امید کی نئی صبح طلوع ہوئی ہے،اپنے شہید ساتھیوں کی یاد نے ان بچوں کی سینوں میں وہ شمع جلائی ہے جو رہتی دنیا تک روشنی کی کرنیں بکھیرے گی۔سبز ہلالی پرچم کے ہم رنگ یونی فارم پہنے یہ غازی راکھ کے ڈھیر سے اٹھے ہیں،جن کا عزم ہے کہ جہالت کے شعلوں کو راکھ کردیں گے۔